وعن عبد الله بن عمرو قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله خلق خلقه في ظلمة فالقى عليهم من نوره فمن اصابه من ذلك النور اهتدى ومن اخطاه ضل فلذلك اقول: جف القلب على علم الله". رواه احمد والترمذي وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٌو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهُ فِي ظُلْمَةٍ فَأَلْقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ فَمَنْ أَصَابَهُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ اهْتَدَى وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ فَلذَلِك أَقُول: جف الْقلب على علم الله". رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ نے اپنی مخلوق کو اندھیرے میں پیدا فرمایا، پھر ان پر اپنا نور ڈالا، پس جس کو یہ نور میسر آ گیا وہ ہدایت پا گیا اور جو اس سے محروم رہا وہ گمراہ ہو گیا، پس میں اسی لیے کہتا ہوں، اللہ کے علم پر قلم خشک ہو چکا ہے۔ “ اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أحمد (2/ 176 ح 6644 ب) والترمذي (2642 وقال: ھذا حديث حسن.) [و صححه ابن حبان (الموارد: 1812) والحاکم (1/ 30) ووافقه الذهبي.]»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 101
تخریج: [سنن ترمذي 2642]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند حسن ہے۔ ● اسماعیل بن عیاش مختلف فیہ راوی ہیں، اگر وہ اپنے ثقہ و صدوق شامی استادوں سے حدیث بیان کریں تو حسن لذاتہ ہوتی ہے اور اگر غیر شامیوں مثلا حجازیوں سے روایت کریں تو ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے: طبقات المدلسین للحافظ ابن حجر [68؍3] وعام کتب رجال۔ ● اسماعیل بن عیاش قول راجح میں مدلس نہیں تھے۔ دیکھئے: میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین [ص49] ● اسماعیل بن عیاش اس روایت میں منفرد نہیں ہیں، بلکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے، یعنی یہی روایت اوزاعی نے یحییٰ بن ابی عمرو السیبانی (الحمصی الشامی: ثقہ) سے بیان کر رکھی ہے۔ ● دیکھئے: امام ابواسحاق ابراہیم بن محمد الفزاری رحمہ اللہ (متوفی 186ھ) کی کتاب السیر [ح641] اور المستدرک للحاکم [1؍30 ح83] اسے یحییٰ بن ابی عمرو سے ایک جماعت نے بیان کیا ہے۔ مثلاً دیکھئے: کتاب السنۃ لابن ابی عاصم [242] وغیرہ ● یحییٰ بن ابی عمرو بھی اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ ربیعہ بن یزید (الدمشقی: ثقہ عابد) نے اسے عبداللہ بن (فیروز) الدیلمی (ثقہ من کبار التابعین) سے بیان کیا ہے۔ دیکھئے: مسند أحمد [ج2 ص 176 6644 وسندہ صحیح] ↰ اس متابعت کے ساتھ یہ روایت صحیح ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ تقدیر برحق ہے۔ ➋ یہاں مخلوق سے مراد انسان اور جن ہیں، کیونکہ فرشتے تو نور سے پیدا کئے گئے ہیں۔ ➌ سنن ترمذی کی یہ روایت حافظ المزی رحمہ اللہ کی کتاب تحفتہ الاشراف سے رہ گئی ہے۔ نیز دیکھئے: المسند الجامع [ج11 ص 17 ح8330]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2642
´امت محمدیہ کی فرقہ بندی کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کا پر تو) تو جس پر یہ نور پڑ گیا وہ ہدایت یاب ہو گیا اور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کر گیا) تو وہ گمراہ ہو گیا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم پر (تقدیر کا) قلم خشک ہو چکا ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2642]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جا چکی ہے، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2642