وعن انس بن مالك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: لا تشددوا على انفسكم فيشدد الله عليكم فإن قوما شددوا على انفسهم فشدد الله عليهم فتلك بقاياهم في الصوامع والديار (رهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم) رواه ابو داود وَعَن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدِّدَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ والديار (رَهْبَانِيَّة ابتدعوها مَا كتبناها عَلَيْهِم) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالا کرو، ورنہ اللہ بھی تمہیں مشقت میں ڈال دے گا، کیونکہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی، یہود و نصاری کی عبادت گاہوں میں یہ سختیاں انہی کی باقیات ہیں۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کی تھی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ “ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4904) ٭ سعيد بن عبد الرحمٰن بن أبي العمياء و ثقه ابن حبان وحده و لبعض الحديث شاھد عند البخاري في التاريخ الکبير (94/4) وسنده حسن وھو يغني عنه.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 181
تحقیق الحدیث اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اسے ابویعلی الموصلی [المسند 365/6ح 3694] نے بھی اسی سند سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کے راوی سعید بن عبدالرحمٰن بن ابی العمیاء کو ابن حبان کے سوا کسی نے ثقہ قرار نہیں دیا یعنی وہ مجہول الحال ہے۔ ◄ التاریخ الکبیر للبخاری [97/4] میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «لا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ بِتَشْدِيدِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَسَتَجِدُونَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارَاتِ» ”اپنے آپ پر تشدد نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے اپنے آپ پر تشدد کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے اور تم ان کے باقی رہ جانے والے نشانات راہبوں کے عبادت خانوں اور (سجدہ گاہوں والے) گھروں میں دیکھو گے۔“ ◄ ↰ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ عبداللہ بن صالح کاتب اللیث سے امام بخاری کی روایت حسن ہوتی ہے اور باقی سند صحیح ہے۔ ◄ ابوشریح عبدالرحمٰن بن شریح الاسکندرانی ثقہ فاضل تھے۔ ان پر ابن سعد کی جرح مردود ہے۔ ◄ نیز دیکھئے: [تقريب التهذيب 3892]
فقہ الحدیث: التاریخ الکبیر للبخاری والی روایت کا فقہ الحدیث درج ذیل ہے۔ ➊ شریعت میں جن امور کی اجازت اور رخصت موجود ہے، انہیں خوامخواہ اپنے آپ پر حرام یا ممنوع قرار نہیں دینا چاہئیے بلکہ رخصت سے فائدہ اٹھانا ہی بہتر ہے۔ ➋ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے بلکہ معاشرے میں رہ کر اپنی اور لوگوں کی اصلاح میں مصروف رہنا چاہئیے۔ ➌ غلو سے ہر وقت کلی اجتناب کرتے ہوئے ہمیشہ عدل و انصاف والا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ ➍ معاشرے سے دور خانقاہی نظام اصل میں احبار یہود اور رہبان نصاریٰ کے اعمال کی کاپی ہے۔ ➎ امام ابوداود کا سنن ابوداود میں کسی روایت پر سکوت اس کے حسن یا صحیح ہونے کی دلیل نہیں بلکہ عدل و انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے اسماء الرجال اور اصول حدیث کے مطابق ہی روایت کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہئیے۔ ➏ اسلام میں چلہ کشی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ➐ قرآن و حدیث سے زہد اور پرہیزگاری کا تو ثبوت ملتا ہے لیکن پیری مریدی کا کوئی ثبوت دلیل میں نہیں ہے۔ ➑ شریعت اسلامیہ میں اہل اسلام اور اہل ایمان کی صحیح تربیت کا پورا خیال رکھا گیا ہے تاکہ مسلمان، گمراہیوں سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور اسی میں نجات ہے۔ ➒ سنت پر عمل میں ہی نجات ہے۔ ➓ بدعات سے اجتناب ضروری ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4904
´حسد کا بیان۔` سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کر لیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4904]
فوائد ومسائل: یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حسد اور بغاوت کی وجہ سے افراد، خاندان اور قومیں دنیا کے اند ر ہی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4904