(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، قال: اخبرني سعيد بن عبد الرحمن بن ابي العمياء، ان سهل بن ابي امامة حدثه، انه دخل هو وابوه على انس بن مالك بالمدينة في زمان عمر بن عبد العزيز وهو امير المدينة، فإذا هو يصلي صلاة خفيفة دقيقة كانها صلاة مسافر او قريبا منها فلما سلم، قال ابي: يرحمك الله، ارايت هذه الصلاة المكتوبة او شيء تنفلته؟ , قال: إنها المكتوبة وإنها لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما اخطات إلا شيئا سهوت عنه، فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يقول:" لا تشددوا على انفسكم فيشدد عليكم، فإن قوما شددوا على انفسهم فشدد الله عليهم فتلك بقاياهم في الصوامع والديار ورهبانية ابتدعوها ما كتبناها عليهم , ثم غدا من الغد، فقال: الا تركب لتنظر ولتعتبر، قال: نعم، فركبوا جميعا فإذا هم بديار باد اهلها وانقضوا وفنوا خاوية على عروشها، فقال: اتعرف هذه الديار، فقلت: ما اعرفني بها وباهلها، هذه ديار قوم اهلكهم البغي والحسد إن الحسد يطفئ نور الحسنات والبغي يصدق ذلك او يكذبه والعين تزني والكف والقدم والجسد واللسان والفرج يصدق ذلك او يكذبه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْعَمْيَاءِ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَأَبُوهُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِالْمَدِينَةِ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي صَلَاةً خَفِيفَةً دَقِيقَةً كَأَنَّهَا صَلَاةُ مُسَافِرٍ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ أَبِي: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، أَرَأَيْتَ هَذِهِ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ أَوْ شَيْءٌ تَنَفَّلْتَهُ؟ , قَالَ: إِنَّهَا الْمَكْتُوبَةُ وَإِنَّهَا لَصَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْطَأْتُ إِلَّا شَيْئًا سَهَوْتُ عَنْهُ، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَار وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ , ثُمَّ غَدَا مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: أَلَا تَرْكَبُ لِتَنْظُرَ وَلِتَعْتَبِرَ، قَالَ: نَعَمْ، فَرَكِبُوا جَمِيعًا فَإِذَا هُمْ بِدِيَارٍ بَادَ أَهْلُهَا وَانْقَضَوْا وَفَنُوا خَاوِيَةٍ عَلَى عُرُوشِهَا، فَقَالَ: أَتَعْرِفُ هَذِهِ الدِّيَارَ، فَقُلْتُ: مَا أَعْرَفَنِي بِهَا وَبِأَهْلِهَا، هَذِهِ دِيَارُ قَوْمٍ أَهْلَكَهُمُ الْبَغْيُ وَالْحَسَدُ إِنَّ الْحَسَدَ يُطْفِئُ نُورَ الْحَسَنَاتِ وَالْبَغْيُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ وَالْعَيْنُ تَزْنِي وَالْكَفُّ وَالْقَدَمُ وَالْجَسَدُ وَاللِّسَانُ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ.
سہل بن ابی امامہ کا بیان ہے کہ وہ اور ان کے والد عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جب وہ مدینے کے گورنر تھے، مدینے میں انس رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا، وہ ہلکی یا مختصر نماز پڑھ رہے ہیں، جیسے وہ مسافر کی نماز ہو یا اس سے قریب تر کوئی نماز، جب انہوں نے سلام پھیرا تو میرے والد نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ بتائیے کہ یہ فرض نماز تھی یا آپ کوئی نفلی نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا: یہ فرض نماز تھی، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، اور جب بھی مجھ سے کوئی غلطی ہوتی ہے، میں اس کے بدلے سجدہ سہو کر لیتا ہوں، پھر کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اپنی جانوں پر سختی نہ کرو ۲؎ کہ تم پر سختی کی جائے ۳؎ اس لیے کہ کچھ لوگوں نے اپنے اوپر سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کر دی تو ایسے ہی لوگوں کے باقی ماندہ لوگ گرجا گھروں میں ہیں انہوں نے رہبانیت کی شروعات کی جو کہ ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی پھر جب دوسرے دن صبح ہوئی تو کہا: کیا تم سواری نہیں کرتے یعنی سفر نہیں کرتے کہ دیکھو اور نصیحت حاصل کرو، انہوں نے کہا: ہاں (کرتے ہیں) پھر وہ سب سوار ہوئے تو جب وہ اچانک کچھ ایسے گھروں کے پاس پہنچے، جہاں کے لوگ ہلاک اور فنا ہو کر ختم ہو چکے تھے، اور گھر چھتوں کے بل گرے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان گھروں کو پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا: مجھے کس نے ان کے اور ان کے لوگوں کے بارے میں بتایا؟ (یعنی میں نہیں جانتا) تو انس نے کہا: یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جنہیں ان کے ظلم اور حسد نے ہلاک کر دیا، بیشک حسد نیکیوں کے نور کو گل کر دیتا ہے اور ظلم اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب اور آنکھ زنا کرتی ہے اور ہتھیلی، قدم جسم اور زبان بھی اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔
وضاحت: ۱؎: دشوار اور شاق عمل کر کے جیسے صوم دہر، پوری پوری رات شب بیداری اور عورتوں سے مکمل علیحدگی وغیرہ اعمال۔ ۲؎: یعنی یہ اعمال تم پر فرض قرار دے دئیے جائیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 899) (حسن) (اس میں سعید بن عبدالرحمن لین الحدیث ہیں، شواہد وطرق کی بناء پر حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 3124 وتراجع الألباني 13)»
Narrated Anas ibn Malik: Sahl ibn Abu Umamah said that he and his father (Abu Umamah) visited Anas ibn Malik at Madina during the time (rule) of Umar ibn Abdul Aziz when he (Anas ibn Malik) was the governor of Madina. He was praying a very short prayer as if it were the prayer of a traveller or near it. When he gave a greeting, my father said: May Allah have mercy on you! Tell me about this prayer: Is it obligatory or supererogatory? He said: It is obligatory; it is the prayer performed by the Messenger of Allah ﷺ. I did not make a mistake except in one thing that I forgot. He said: The Messenger of Allah ﷺ used to say: Do not impose austerities on yourselves so that austerities will be imposed on you, for people have imposed austerities on themselves and Allah imposed austerities on them. Their survivors are to be found in cells and monasteries. (Then he quoted: ) "Monasticism, they invented it; we did not prescribe it for them. " Next day he went out in the morning and said: will you not go out for a ride, so that you may see something and take a lesson from it? He said: Yes. Then all of them rode away and reached a land whose inhabitants had perished, passed away and died. The roofs of the town had fallen in. He asked: Do you know this land? I said: Who acquainted me with it and its inhabitants? (Anas said: ) This is the land of the people whom oppression and envy destroyed. Envy extinguishes the light of good deeds, and oppression confirms or falsifies it. The eye commits fornication, and the palm of the hand, the foot, body, tongue and private part of the body confirm it or deny it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 4886
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سعيد بن عبد الرحمٰن بن أبي العمياء مقبول (تق: 2353) أي مجهول الحال،وثقه ابن حبان وحده ولبعض الحديث شاهد حسن عند البخاري في التاريخ الكبير (97/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 171
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4904
فوائد ومسائل: یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حسد اور بغاوت کی وجہ سے افراد، خاندان اور قومیں دنیا کے اند ر ہی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4904
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 181
´رہبانیت کی مذمت` «. . . وَعَن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدِّدَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ فَشَدَّدَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ والديار (رَهْبَانِيَّة ابتدعوها مَا كتبناها عَلَيْهِم) رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنی جانوں پر تشدد اور سختی مت کرو (یعنی عبادت ریاضت میں اتنی تکلیف مت اٹھاؤ جو تمہاری طاقت سے باہر ہو) ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر تشدد کرے گا اور سختی ڈالے دے گا۔ کیونکہ تم سے پہلے ایک قوم بنی اسرائیل نے اپنی جانوں پر تشدد کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی ڈال دی۔ اس زمانے میں گرجا گھروں اور خانقاہوں اور عبارت خانوں میں پائے جاتے ہیں انہیں لوگوں کی یادگار ہیں اور بقایا ہیں کہ ان لوگوں نے رہبانیت اور ترک دنیا کو اپنی طبیعت سے تراش اور گڑ لیا جس کو ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 181]
تحقیق الحدیث اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اسے ابویعلی الموصلی [المسند 365/6ح 3694] نے بھی اسی سند سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کے راوی سعید بن عبدالرحمٰن بن ابی العمیاء کو ابن حبان کے سوا کسی نے ثقہ قرار نہیں دیا یعنی وہ مجہول الحال ہے۔ ◄ التاریخ الکبیر للبخاری [97/4] میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: «لا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ قَبْلَكُمْ بِتَشْدِيدِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَسَتَجِدُونَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارَاتِ» ”اپنے آپ پر تشدد نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے اپنے آپ پر تشدد کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے اور تم ان کے باقی رہ جانے والے نشانات راہبوں کے عبادت خانوں اور (سجدہ گاہوں والے) گھروں میں دیکھو گے۔“ ◄ ↰ اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ عبداللہ بن صالح کاتب اللیث سے امام بخاری کی روایت حسن ہوتی ہے اور باقی سند صحیح ہے۔ ◄ ابوشریح عبدالرحمٰن بن شریح الاسکندرانی ثقہ فاضل تھے۔ ان پر ابن سعد کی جرح مردود ہے۔ ◄ نیز دیکھئے: [تقريب التهذيب 3892]
فقہ الحدیث: التاریخ الکبیر للبخاری والی روایت کا فقہ الحدیث درج ذیل ہے۔ ➊ شریعت میں جن امور کی اجازت اور رخصت موجود ہے، انہیں خوامخواہ اپنے آپ پر حرام یا ممنوع قرار نہیں دینا چاہئیے بلکہ رخصت سے فائدہ اٹھانا ہی بہتر ہے۔ ➋ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے بلکہ معاشرے میں رہ کر اپنی اور لوگوں کی اصلاح میں مصروف رہنا چاہئیے۔ ➌ غلو سے ہر وقت کلی اجتناب کرتے ہوئے ہمیشہ عدل و انصاف والا درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ ➍ معاشرے سے دور خانقاہی نظام اصل میں احبار یہود اور رہبان نصاریٰ کے اعمال کی کاپی ہے۔ ➎ امام ابوداود کا سنن ابوداود میں کسی روایت پر سکوت اس کے حسن یا صحیح ہونے کی دلیل نہیں بلکہ عدل و انصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے اسماء الرجال اور اصول حدیث کے مطابق ہی روایت کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہئیے۔ ➏ اسلام میں چلہ کشی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ➐ قرآن و حدیث سے زہد اور پرہیزگاری کا تو ثبوت ملتا ہے لیکن پیری مریدی کا کوئی ثبوت دلیل میں نہیں ہے۔ ➑ شریعت اسلامیہ میں اہل اسلام اور اہل ایمان کی صحیح تربیت کا پورا خیال رکھا گیا ہے تاکہ مسلمان، گمراہیوں سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور اسی میں نجات ہے۔ ➒ سنت پر عمل میں ہی نجات ہے۔ ➓ بدعات سے اجتناب ضروری ہے۔