حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب ، عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل ، عن عبد الله بن عباس ، ان عمر بن الخطاب خرج إلى الشام حتى إذا كان بسرغ لقيه اهل الاجناد ابو عبيدة بن الجراح واصحابه، فاخبروه ان الوباء قد وقع بالشام، قال ابن عباس: فقال عمر : ادع لي المهاجرين الاولين، فدعوتهم، فاستشارهم واخبرهم ان الوباء قد وقع بالشام، فاختلفوا، فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه، وقال بعضهم: معك بقية الناس، واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوباء، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال ادع لي الانصار، فدعوتهم له، فاستشارهم، فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادع لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجرة الفتح فدعوتهم، فلم يختلف عليه رجلان، فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء، فنادى عمر في الناس إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال ابو عبيدة بن الجراح: افرارا من قدر الله، فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، وكان عمر يكره خلافه، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله، ارايت لو كانت لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة، اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله، وإن رعيت الجدبة رعيتها بقدر الله، قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا في بعض حاجته، فقال : إن عندي من هذا علما، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا فرارا منه "، قال: فحمد الله عمر بن الخطاب، ثم انصرف.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ إِلَى الشَّامِ حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أَهْلُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَر ُ: ادْعُ لِي الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَاسْتَشَارَهُمْ وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَاخْتَلَفُوا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ، وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ ادْعُ لِي الْأَنْصَارِ، فَدَعَوْتُهُمْ لَهُ، فَاسْتَشَارَهُمْ، فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُ لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرَةِ الْفَتْح فَدَعَوْتُهُمْ، فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ رَجُلَانِ، فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ إِنِّي مُصْبِحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ: أَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ، فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُ خِلَافَهُ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَتْ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ، أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، وَإِنْ رَعَيْتَ الْجَدْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، فَقَال َ: إِنَّ عِنْدِي مِنْ هَذَا عِلْمًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ "، قَالَ: فَحَمِدَ اللَّهَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، ثُمَّ انْصَرَفَ.
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبدالحمید بن عبدالرحمان بن زید بن خطاب سے، انھوں نے عبداللہ بن عبداللہ بن حارث بن نوفل سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے۔ جب (تبوک کے مقام) سرغ پر پہنچے تو لشکر گاہوں کے امراء میں سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب نے آپ سے ملاقات کی۔اور یہ بتایا کہ شام میں وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے سامنے مہاجرین اوّلین کو بلاؤ۔ (مہاجرین اوّلین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو) میں نے ان کو بلایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشورہ لیا اور ان سے بیان کیا کہ شام کے ملک میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ ایک اہم کام کے لئے نکلے ہوئے ہیں اس لئے ہم آپ کا لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔ بعض نے کہا کہ تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو اگلوں میں باقی رہ گئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اور ہم ان کو وبائی ملک میں لے جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ انصار کے لوگوں کو بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو انہوں نے ان سے مشورہ لیا۔ انصار بھی مہاجرین کی چال چلے اور انہی کی طرح اختلاف کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ جاؤ۔ پھر کہا کہ اب قریش کے بوڑھوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے یا (فتح کے ساتھ ہی) مسلمان ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو بلایا اور ان میں سے دو نے بھی اختلاف نہیں کیا، سب نے یہی کہا کہ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیے اور ان کو وبا کے سامنے نہ کیجئے۔ آخر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کرا دی کہ میں صبح کو اونٹ پر سوار ہوں گا (اور مدینہ لوٹوں گا) تم بھی سوار ہو جاؤ۔ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا تقدیر سے بھاگتے ہو؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا (یا اگر اور کوئی کہتا تو میں اس کو سزا دیتا) { اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ برا جانتے تھے ان کا خلاف کرنے کو } ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کیا اگر تمہارے پاس اونٹ ہوں اور تم ایک وادی میں جاؤ جس کے دو کنارے ہوں ایک کنارہ سرسبز اور شاداب ہو اور دوسرا خشک اور خراب ہو اور تم اپنے اونٹوں کو سرسبز اور شاداب کنارے میں چراؤ تو اللہ کی تقدیر سے چرایا اور جو خشک اور خراب میں چراؤ تب بھی اللہ کی تقدیر سے چرایا (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس چرواہے پر کوئی الزام نہیں ہے بلکہ اس کا فعل قابل تعریف ہے کہ جانوروں کو آرام دیا ایسا ہی میں بھی اپنی رعیت کا چرانے والا ہوں تو جو ملک اچھا معلوم ہوتا ہے ادھر لے جاتا ہوں اور یہ کام تقدیر کے خلاف نہیں ہے بلکہ عین تقدیر الٰہی ہے)؟ اتنے میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آئے اور وہ کسی کام کو گئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو اس مسئلہ کی دلیل موجود ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب تم سنو کہ کسی ملک میں وبا پھیلی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تمہارے ملک میں وبا پھیلے تو بھاگو بھی نہیں۔ کہا: اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔پھر (اگلےدن) روانہ ہوگئے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب شام جانے کے لیے نکلے، جب سرغ نامی جگہ پر پہنچے، انہیں لشکروں کے کمانڈر، ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی ملے اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا کر لاؤ تو میں نے ان کو بلایا، سو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ان میں اختلاف ہو گیا، بعض نے کہا، آپ ایک مقصد کی خاطر نکلے ہیں، اس لیے ہم اس سے آپ کی واپسی مناسب خیال نہیں سمجھتے اور بعض نے کہا آپ کے ساتھ بہترین لوگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں، ہمارے خیال میں آپ انہیں، اس وبائی علاقہ میں نہ لے جائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، تم میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر انہوں نے کہا، میرے پاس انصار کو بلا لاؤ، میں نے ان کو ان کے پاس بلا لایا تو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا، انہوں نے بھی مہاجرین کی راہ اپنائی اور ان کی طرح اختلاف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس سے چلے جاؤ، پھر کہا، میرے پاس فتح مکہ کے وقت ہجرت کرنے والے قریش کے عمر رسیدہ اشخاص کو بلاؤ، سو میں نے ان کو بلایا ان میں سے دو شخصوں نے بھی اختلاف نہ کیا، سب نے کہا، ہم سمجھتے ہیں، آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور انہیں اس وبائی علاقہ میں نہ لے جائیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں میں اعلان کروا دیا، میں کل صبح سواری پر سوار ہو جاؤں گا، اس لیے تم بھی سوار ہو جانا، اس پر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ نے کہا، کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہو؟ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے کاش! کسی اور نے یہ کہا ہوتا، اے ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر، ابو عبیدہ کی مخالفت کو پسند نہیں کرتے تھے، ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں، بتائیے، اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور آپ ایسی وادی میں اتریں، جس کے دو کنارے ہوں، ایک کنارہ سرسبز و شاداب ہو اور دوسرا خشک، بنجر اور ویران، کیا ایسے نہیں ہے، اگر آپ سرسبز و شاداب کنارے میں چرائیں گے تو یہ اللہ کی تقدیر سے ہو گا اور اگر بنجر اور ویران کنارے سے چرائیں گے تو یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہو گا؟ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ آ گئے، وہ اپنی کسی ضرورت کی بنا پر غائب تھے تو انہوں نے کہا، میرے پاس اس کے بارے میں یقینی علم ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب تم اس کا کسی علاقہ میں پڑنا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ ایسے علاقہ میں پڑ جائے، جہاں تم ہو تو اس سے بھاگتے ہوئے نہ نکلو۔“ اس پر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا، (کہ ان کی رائے حدیث کے مطابق تھی) پھر واپس روانہ ہو گئے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5784
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) وباء: اس سے مراد، طاعون عمواس ہے، جو 17ھ یا18ھ میں شام میں پڑا، صفر کے آخر میں ختم ہوگیا، عمواس پھر پڑ گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ربیع الاول میں نکلے، جب شام کے قریب حجاز کے آخری علاقہ سرغ میں پہنچے تو حضرت ابو عبیدۃ، خالد بن ولید، یزید بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ اور حضرت عمرو بن عاص، جو الگ الگ ایک علاقہ کے لشکر کے کمانڈر تھے اور کمانڈر ان چیف، حضرت ابو عبیدہ تھے، نے بتایا، طاعون تو شدت اختیار کرچکا ہے۔ (2) مشيخة قريش من مهاجرة الفتح: وہ عمر رسیدہ لوگ جو فتح مکہ کے بعد، مدینہ چلے گئے تھے، اگرچہ شرعی روسے یہ ہجرت نہ تھی، لیکن اپنا علاقہ چھوڑنے کی بنا پر اس کو ہجرت سے تعبیر کیا، مقصد یہ ہے صرف ان قریشی سرداروں کو بلایا، جو فتح مکہ کے بعد مدینہ چلے گئے تھے، جو مکہ میں رہ گئے تھے، ان کو نہیں بلایا۔ (3) افرارا من قدر الله: کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں، اللہ کی مشیت اور اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، اس لیے ہمیں وباء میں گرفتارہونے سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (4) لو غيرك قالها، يا ابا عبيدة: اے ابو عبیدہ! اے کاش، کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی، آپ جیسے جلیل القدر صحابی، جو علم وذہانت سے متصف ہے، کا یہ کہنا، انتہائی تعجب انگیز اور باعث حیرت ہے، یا جس مسئلہ میں اہل حل وعقد اور تجربہ کار لوگوں کی اکثریت متفق ہوچکی ہے، کوئی اور اس کی مخالفت کرتا تومیں اس کو سزا دیتا، لیکن آپ جیسے صاحب علم وفضل اور اپنے متعمد کو کیا کہوں؟(5) وكان عمر يكسرہ خلافة: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی ذہانت وفطانت اور اہلیت کی بنا پر، ان کی رائے کو نظر انداز کرنا پسند نہیں کرتے، یا مشورہ کے بعد ایک رائے قائم ہوجانے کےبعد، ان کی مخالفت ان کو پسند نہ آئی، کیونکہ انہوں نے یہ رائے مشورہ کرنے کے بعد، پوری سوچ وبچار سے قائم کی تھی، ان کی انفرادی رائے نہ تھی۔ (6) نفر من قدر الله الي قدر الله: حزم واحتیاط یا حفاظتی تدابیراختیار کرنا بھی اللہ کی تقدیر یا حصہ ہے، یہ تقدیر کا توکل کے منافی نہیں ہے، اسباب ووسائل اپنانے کی تلقین شریعت کا حکم ہے۔ (7) عدوتان: عدوة: وادی کا بلند کنارہ، حصبة: سرسبزوشاداب، جدبة، بنجر، بے آب وگیاہ۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، ضرورت کے تحت سربراہ حکومت، اپنے مستقر سے، کسی دوسرے علاقہ کے حالات کا مشاہدہ کرنے، مظلوم کی فریاد رسی، اہل ضرورت کی ضرورت پوری کرنے اور اہل فساد کا استیصال کرنے کے لیے جا سکتا ہے اور اسے پیش آمدہ مسائل میں اہل حل و عقد یا اصحاب رائے سے مشورہ کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں کسی حتمی رائے پر پہنچ کر اس کو عملی جامہ پہنانا چاہیے اور اہل علم و فضل کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق سلوک کرنا چاہیے اور اپنی رائے کے دفاع میں دلیل و برہان سے کام لینا چاہیے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل یا تقدیر کے منافی نہیں ہے، کیونکہ تدابیر کا اہتمام بھی مشیت الٰہی پر موقوف ہے، اس کے بغیر انسان حزم و احتیاط کا راستہ اختیار نہیں کر سکتا، اگر انسان سرسبز و شاداب علاقہ میں اپنے مویشی چراتا ہے تو یہ بھی اللہ کی مشیت اور اجازت سے ہے اور اگر خشک یا بنجر علاقہ میں چرائے گا تو یہ بھی اللہ کی منشا اور اجازت سے ہو گا، اللہ کی منشا یا اجازت کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا، اس لیے تمام امور میں جائز اسباب و وسائل یا ذرائع اختیار کر کے نتائج اللہ کے سپرد کرنا چاہیے، یہ نہیں ہے کہ طاعون زدہ علاقہ میں جانے والا ضرور مر جائے گا اور وہاں سے بھاگنے والا ضرور بچ جائے گا اور بھاگنا ہی اس کی موت کا باعث نہیں بنے گا، انسان کو صحیح رائے قائم کرنے کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے، اس لیے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5784
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3103
´طاعون سے نکل بھاگنا۔` عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی زمین کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ۱؎ پھیلا ہوا ہے تو تم وہاں نہ جاؤ ۲؎، اور جس سر زمین میں وہ پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو طاعون سے بچنے کے خیال سے وہاں سے بھاگ کر (کہیں اور) نہ جاؤ ۳؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3103]
فوائد ومسائل: کسی کا بیمار ہوجانا پھر علاج معالجہ کرنے کے بعد اس کا شفا یاب ہونا یا نہ ہونا یہ سب اللہ عزوجل کی تقدیر سے ہوتا ہے۔ تو وبا کی پھیلنے کی صورت میں ہمیں یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ وبازدہ علاقے میں جایا نہ جائےاور وہاں کے مقیم لوگ وہاں سے (وبا کے ڈر سے) فرار اختیار نہ کریں۔ بلکہ وہیں رہتے ہوئے علاج معالجہ اور حفاظتی تدابیر اخیتار کریں۔ تاہم کسی کو کوئی اہم شرعی ضرورت لاحق ہو تو بات اور ہے۔ اس صورت میں اس کا جانا فرار میں نہیں آئے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3103
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5787
حضرت عبداللہ بن عامر ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو جب سرغ مقام پر پہنچے، انہیں اطلاع ملی کہ شام میں وبا پھیل چکی ہے تو انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”جب تم کسی علاقہ میں اس کا ہونا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب تمہارے علاقہ میں پڑ جائے تو اس سے بھاگتے ہوئے وہاں نہ نکلو۔“ اس وجہ سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5787]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے، حضرت عمر کے عزم میں پختگی حدیث سننے سے ہی پیدا ہوئی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، حضرت عمر نے واپسی پر ندامت کا اظہار کیا تو ممکن ہے جب جلدی وباء ختم ہو گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا ہو گا، اگر میں سرغ میں ٹھہرتا اور وباء کے خاتمہ کے بعد شام چلا جاتا تو میں نے جس مقصد کے لیے سفر کیا تھا، وہ بھی پورا ہو جاتا اور حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے، یہ نہیں ہے کہ ان کی رائے بدل گئی تھی اور وہ وبائی علاقہ میں جانا درست سمجھنے لگے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5787
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6973
6973. حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ شام (کا علاقہ فتح کرنے کے لیے) روانہ ہوئے۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو انہیں اطلاع ملی شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ اس دوران میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی سرزمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں مت جاؤ۔ اور اگر کسی مقام پر وبا پھوٹ پڑے اور تم وہاں موجود ہوتو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نقل مکانی نہ کرو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ مقام سرغ سے واپس آگئے۔ ابن شہاب سالم بن عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی حدیث سن کر واپس ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6973]
حدیث حاشیہ: یہ طاعون عمواس کا ذکر ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6973
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6973
6973. حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ شام (کا علاقہ فتح کرنے کے لیے) روانہ ہوئے۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو انہیں اطلاع ملی شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ اس دوران میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی سرزمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں مت جاؤ۔ اور اگر کسی مقام پر وبا پھوٹ پڑے اور تم وہاں موجود ہوتو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نقل مکانی نہ کرو۔“ چنانچہ حضرت عمر ؓ مقام سرغ سے واپس آگئے۔ ابن شہاب سالم بن عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی حدیث سن کر واپس ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6973]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھارہ ہجری کو ربیع الثانی کے مہینے میں علاقہ شام فتح کرنے کے لیے مدینہ طیبہ نکلے تھے۔ سرغ شام کا ایک علاقہ ہے جو حجاز کی جانب ہے اسے بعد میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا۔ (عمدة القاري: 253/16) 2۔ اگر کوئی شخص وبائی شہر میں ہو تو وہاں سے تجارت یا عزیز و اقارب کی ملاقات کے بہانے سے نکلنا بھی جائز نہیں کیونکہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبائی شہر چھوڑنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار اختیار کرنا ہے حالانکہ یہ کسی کے لیے جائز نہیں کیونکہ انسان جتنی بھی کوشش کرے وہ قضا و قدر پر غالب نہیں آ سکتا۔ (فتح الباري: 431/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6973