ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبداللہ ابن عامر بن ربیعہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (سنہ 18 ھ ماہ ربیع الثانی میں) شام تشریف لے گئے۔ جب مقام سرغ پر پہنچے تو ان کو یہ خبر ملی کہ شام وبائی بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ پھر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ کسی سر زمین میں وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس میں داخل مت ہو، لیکن اگر کسی جگہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو وبا سے بھاگنے کے لیے تم وہاں سے نکلو بھی مت۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ مقام سرغ سے واپس آ گئے۔ اور ابن شہاب سے روایت ہے، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عمر رضی اللہ عنہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر واپس ہو گئے تھے۔
Narrated `Abdullah bin 'Amir bin Rabi`a: `Umar bin Al-Khattab left for Sham, and when he reached a placed called Sargh, he came to know that there was an outbreak of an epidemic (of plague) in Sham. Then `AbdurRahman bin `Auf told him that Allah's Apostle said, "If you hear the news of an outbreak of an epidemic (plague) in a certain place, do not enter that place: and if the epidemic falls in a place while you are present in it, do not leave that place to escape from the epidemic." So `Umar returned from Sargh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 86, Number 103
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6973
حدیث حاشیہ: یہ طاعون عمواس کا ذکر ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6973
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6973
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھارہ ہجری کو ربیع الثانی کے مہینے میں علاقہ شام فتح کرنے کے لیے مدینہ طیبہ نکلے تھے۔ سرغ شام کا ایک علاقہ ہے جو حجاز کی جانب ہے اسے بعد میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتح کیا تھا۔ (عمدة القاري: 253/16) 2۔ اگر کوئی شخص وبائی شہر میں ہو تو وہاں سے تجارت یا عزیز و اقارب کی ملاقات کے بہانے سے نکلنا بھی جائز نہیں کیونکہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبائی شہر چھوڑنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار اختیار کرنا ہے حالانکہ یہ کسی کے لیے جائز نہیں کیونکہ انسان جتنی بھی کوشش کرے وہ قضا و قدر پر غالب نہیں آ سکتا۔ (فتح الباري: 431/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6973
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3103
´طاعون سے نکل بھاگنا۔` عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی زمین کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ۱؎ پھیلا ہوا ہے تو تم وہاں نہ جاؤ ۲؎، اور جس سر زمین میں وہ پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو طاعون سے بچنے کے خیال سے وہاں سے بھاگ کر (کہیں اور) نہ جاؤ ۳؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3103]
فوائد ومسائل: کسی کا بیمار ہوجانا پھر علاج معالجہ کرنے کے بعد اس کا شفا یاب ہونا یا نہ ہونا یہ سب اللہ عزوجل کی تقدیر سے ہوتا ہے۔ تو وبا کی پھیلنے کی صورت میں ہمیں یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ وبازدہ علاقے میں جایا نہ جائےاور وہاں کے مقیم لوگ وہاں سے (وبا کے ڈر سے) فرار اختیار نہ کریں۔ بلکہ وہیں رہتے ہوئے علاج معالجہ اور حفاظتی تدابیر اخیتار کریں۔ تاہم کسی کو کوئی اہم شرعی ضرورت لاحق ہو تو بات اور ہے۔ اس صورت میں اس کا جانا فرار میں نہیں آئے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3103
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5784
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب شام جانے کے لیے نکلے، جب سرغ نامی جگہ پر پہنچے، انہیں لشکروں کے کمانڈر، ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی ملے اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرے پاس مہاجرین اولین کو بلا کر لاؤ تو میں نے ان کو بلایا، سو انہوں نے ان سے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا، شام میں وباء پھیل چکی ہے،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5784]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) وباء: اس سے مراد، طاعون عمواس ہے، جو 17ھ یا18ھ میں شام میں پڑا، صفر کے آخر میں ختم ہوگیا، عمواس پھر پڑ گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ربیع الاول میں نکلے، جب شام کے قریب حجاز کے آخری علاقہ سرغ میں پہنچے تو حضرت ابو عبیدۃ، خالد بن ولید، یزید بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ اور حضرت عمرو بن عاص، جو الگ الگ ایک علاقہ کے لشکر کے کمانڈر تھے اور کمانڈر ان چیف، حضرت ابو عبیدہ تھے، نے بتایا، طاعون تو شدت اختیار کرچکا ہے۔ (2) مشيخة قريش من مهاجرة الفتح: وہ عمر رسیدہ لوگ جو فتح مکہ کے بعد، مدینہ چلے گئے تھے، اگرچہ شرعی روسے یہ ہجرت نہ تھی، لیکن اپنا علاقہ چھوڑنے کی بنا پر اس کو ہجرت سے تعبیر کیا، مقصد یہ ہے صرف ان قریشی سرداروں کو بلایا، جو فتح مکہ کے بعد مدینہ چلے گئے تھے، جو مکہ میں رہ گئے تھے، ان کو نہیں بلایا۔ (3) افرارا من قدر الله: کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں، اللہ کی مشیت اور اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا، اس لیے ہمیں وباء میں گرفتارہونے سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (4) لو غيرك قالها، يا ابا عبيدة: اے ابو عبیدہ! اے کاش، کسی اور نے یہ بات کہی ہوتی، آپ جیسے جلیل القدر صحابی، جو علم وذہانت سے متصف ہے، کا یہ کہنا، انتہائی تعجب انگیز اور باعث حیرت ہے، یا جس مسئلہ میں اہل حل وعقد اور تجربہ کار لوگوں کی اکثریت متفق ہوچکی ہے، کوئی اور اس کی مخالفت کرتا تومیں اس کو سزا دیتا، لیکن آپ جیسے صاحب علم وفضل اور اپنے متعمد کو کیا کہوں؟(5) وكان عمر يكسرہ خلافة: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کی ذہانت وفطانت اور اہلیت کی بنا پر، ان کی رائے کو نظر انداز کرنا پسند نہیں کرتے، یا مشورہ کے بعد ایک رائے قائم ہوجانے کےبعد، ان کی مخالفت ان کو پسند نہ آئی، کیونکہ انہوں نے یہ رائے مشورہ کرنے کے بعد، پوری سوچ وبچار سے قائم کی تھی، ان کی انفرادی رائے نہ تھی۔ (6) نفر من قدر الله الي قدر الله: حزم واحتیاط یا حفاظتی تدابیراختیار کرنا بھی اللہ کی تقدیر یا حصہ ہے، یہ تقدیر کا توکل کے منافی نہیں ہے، اسباب ووسائل اپنانے کی تلقین شریعت کا حکم ہے۔ (7) عدوتان: عدوة: وادی کا بلند کنارہ، حصبة: سرسبزوشاداب، جدبة، بنجر، بے آب وگیاہ۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، ضرورت کے تحت سربراہ حکومت، اپنے مستقر سے، کسی دوسرے علاقہ کے حالات کا مشاہدہ کرنے، مظلوم کی فریاد رسی، اہل ضرورت کی ضرورت پوری کرنے اور اہل فساد کا استیصال کرنے کے لیے جا سکتا ہے اور اسے پیش آمدہ مسائل میں اہل حل و عقد یا اصحاب رائے سے مشورہ کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں کسی حتمی رائے پر پہنچ کر اس کو عملی جامہ پہنانا چاہیے اور اہل علم و فضل کی قدر کرنی چاہیے اور ان سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق سلوک کرنا چاہیے اور اپنی رائے کے دفاع میں دلیل و برہان سے کام لینا چاہیے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل یا تقدیر کے منافی نہیں ہے، کیونکہ تدابیر کا اہتمام بھی مشیت الٰہی پر موقوف ہے، اس کے بغیر انسان حزم و احتیاط کا راستہ اختیار نہیں کر سکتا، اگر انسان سرسبز و شاداب علاقہ میں اپنے مویشی چراتا ہے تو یہ بھی اللہ کی مشیت اور اجازت سے ہے اور اگر خشک یا بنجر علاقہ میں چرائے گا تو یہ بھی اللہ کی منشا اور اجازت سے ہو گا، اللہ کی منشا یا اجازت کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا، اس لیے تمام امور میں جائز اسباب و وسائل یا ذرائع اختیار کر کے نتائج اللہ کے سپرد کرنا چاہیے، یہ نہیں ہے کہ طاعون زدہ علاقہ میں جانے والا ضرور مر جائے گا اور وہاں سے بھاگنے والا ضرور بچ جائے گا اور بھاگنا ہی اس کی موت کا باعث نہیں بنے گا، انسان کو صحیح رائے قائم کرنے کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے، اس لیے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5784
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5787
حضرت عبداللہ بن عامر ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے تو جب سرغ مقام پر پہنچے، انہیں اطلاع ملی کہ شام میں وبا پھیل چکی ہے تو انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”جب تم کسی علاقہ میں اس کا ہونا سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب تمہارے علاقہ میں پڑ جائے تو اس سے بھاگتے ہوئے وہاں نہ نکلو۔“ اس وجہ سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5787]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے، حضرت عمر کے عزم میں پختگی حدیث سننے سے ہی پیدا ہوئی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے، حضرت عمر نے واپسی پر ندامت کا اظہار کیا تو ممکن ہے جب جلدی وباء ختم ہو گئی تو انہیں خیال پیدا ہوا ہو گا، اگر میں سرغ میں ٹھہرتا اور وباء کے خاتمہ کے بعد شام چلا جاتا تو میں نے جس مقصد کے لیے سفر کیا تھا، وہ بھی پورا ہو جاتا اور حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے، یہ نہیں ہے کہ ان کی رائے بدل گئی تھی اور وہ وبائی علاقہ میں جانا درست سمجھنے لگے تھے۔