وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال ابن رافع: حدثنا، وقال الآخران: اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر بهذا الإسناد نحو حديث مالك وزاد في حديث معمر، قال: وقال له ايضا: ارايت انه لو رعى الجدبة وترك الخصبة اكنت معجزه، قال: نعم، قال: فسر إذا قال، فسار حتى اتى المدينة، فقال: هذا المحل، او قال: هذا المنزل إن شاء الله،وحدثنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ وَزَادَ فِي حَدِيثِ مَعْمَرٍ، قال: وَقَالَ لَهُ أَيْضًا: أَرَأَيْتَ أَنَّهُ لَوْ رَعَى الْجَدْبَةَ وَتَرَكَ الْخَصْبَةَ أَكُنْتَ مُعَجِّزَهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَسِرْ إِذًا قَالَ، فَسَارَ حَتَّى أَتَى الْمَدِينَةَ، فَقَالَ: هَذَا الْمَحِلُّ، أَوَ قَالَ: هَذَا الْمَنْزِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ،
معمر نے ہمیں اسی سند کے ساتھ مالک کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور معمر کی حدیث میں یہ الفاظ زائد بیان کیے، کہا: اور انہوں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے ان (ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ) سے یہ بھی کہا: آپ کا کیا حال ہے کہ اگر وہ (اونٹ) بنجر کنارے پر چرے اور سرسبز کنارے کو چھوڑ دے تو کیا آپ اسے اس کے عجز اور غلطی پر محمول کریں گے؟انھوں نے کہا: ہاں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو پھر چلیں۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: وہ چل کر مدینہ آئے اور کہا: ان شاء اللہ! یہی (کجاوے) کھولنے کی، یاکہا: یہی اترنے کی جگہ ہے۔
امام صاحب کے تین اور اساتذہ یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ اضافہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے یہ بھی کہا، بتائیے، اگر وہ سرسبز و شاداب جگہ کو چھوڑ کر بے آب و گیاہ، بنجر علاقہ میں مویشی چرائے، کیا تم اسے عاجز و بے بس قرار دو گے؟ ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ہاں، کہا تو تب چلئے تو حضرت عمر روانہ ہو گئے، حتی کہ مدینہ پہنچ گئے اور کہنے لگے، یہی محل اور موقع ہے، ان شاءاللہ۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5785
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگر ایک انسان سرسبز و شاداب جگہ کو چھوڑ کر بنجر علاقہ میں مویشی چراتا ہے تو لوگ اس کو عاجز یا بے بس اور مجبورسمجھ کر طعن و تشنیع اور ملامت سے باز نہیں آئیں گے، بلکہ اس پر تنقید و تبصرہ کریں گے تو میں اپنی رعایا کے مفادات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہوں اور ان کے لیے حزم و احتیاط اپنانے سے بے بسی اور مجبوری کا اظہار کیسے کر سکتا ہوں، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو تسلیم کر لیا اور کہنے لگے چلو، جس سے معلوم ہوا، صاحب رائے کو ہر حالت میں اپنے رائے پر اڑنا نہیں چاہیے، اگر دوسروں کی رائے درست ہو تو اس کو خندہ پیشانی سے تسلیم کر لینا چاہیے۔