شیبان بن فروخ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانے نے عبداللہ بن رباح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: کئی وفود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ (عبداللہ بن رباح نے کہا:) ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو ہمیں اکثر اپنی قیام گاہ پر بلاتے تھے۔ ایک (دن) میں نے کہا: میں بھی کیوں نہ کھانا تیار کروں اور سب کو اپنی قیام گاہ پر بلاؤں۔ میں نے کھانا بنانے کا کہہ دیا، پھر شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق احادیث میں سے ایک حدیث نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے مکہ کے فتح ہونے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے، پھر دو میں سے ایک بازو پر زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسرے بازو پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو، ابوعبیدہ (بن جراح) رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ انہوں نے گھاٹی کے درمیان والا راستہ اختیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دستے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "ابوہریرہ!" میں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ساتھ انصاری کے سوا کوئی نہ آئے۔" شیبان کے علاوہ دوسرے راویوں نے اضافہ کیا: آپ نے فرمایا: "میرے لیے انصار کو آواز دو۔" انصار آپ کے اردگرد آ گئے۔ اور قریش نے بھی اپنے اوباش لوگوں اور تابعداروں کو اکٹھا کیا اور کہا: ہم ان کو آگے کرتے ہیں، اگر کوئی چیز (کامیابی) ملی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور اگر ان پر آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا دے دیں گے۔ (دیت، جرمانہ وغیرہ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم قریش کے اوباشوں اور تابعداروں (ہر کام میں پیروی کرنے والوں) کو دیکھ رہے ہو؟" پھر آپ نے دونوں ہاتھوں سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر (مارتے ہوئے) اشارہ فرمایا: " (ان کا صفایا کر دو، ان کا فتنہ دبا دو)، پھر فرمایا: "یہاں تک کہ تم مجھ سے صفا پر آ ملو۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے، ہم میں سے جو کوئی (کافروں میں سے) جس کسی کو مارنا چاہتا، مار ڈالتا اور کوئی ہماری طرف کسی چیز (ہتھیار) کو آگے تک نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! قریش کی جماعت (کے خون) مباح کر دیے گئے اور آج کے بعد قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنا سابقہ بیان دہراتے ہوئے) فرمایا: "جو شخص ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اس کو امن ہے۔" انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی الفت اور اپنے کنبے والوں پر شفقت آ گئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تھی تو ہم سے مخفی نہ رہتی۔ جب وحی آتی تو وحی (کا نزول) ختم ہونے تک کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی آنکھ نہ اٹھاتا تھا، غرض جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے یہ کہا: اس شخص (کے دل میں) اپنے گاؤں کی الفت آ گئی ہے۔" انہوں نے کہا: یقینا ایسا تو ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمایا: "ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی اور تمہاری طرف (آیا) اب میری زندگی بھی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے۔" یہ سن کر انصار روتے ہوئے آگے بڑھے، وہ کہہ رہے تھے: اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم نے کہا جو کہا محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید چاہت (اور ان کی معیت سے محرومی کے خوف) کی وجہ سے کہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔" پھر لوگ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف آ گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لے آئے اور اس کو چوما، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں ایک بت کے پاس آئے، لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک طرف سے پکڑا ہوا تھا، جب آپ بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے: "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔" جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے لگے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں بہت سے وفد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ٹھکانے پر ساتھیوں کو بکثرت بلاتے تھے، عبداللہ بن رباح کہتے ہیں، میں نے دل میں کہا، میں کھانا کیوں نہ تیار کروں اور ساتھیوں کو اپنے ٹھکانہ پر بلاؤں، تم مجھ سے سبقت لے گئے ہو، میں نے کہا، جی ہاں، میں نے ساتھیوں کو بلایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے، اے گروہ انصار، کیا میں تمہیں تمہارے کارناموں سے ایک کارنامہ نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر چھیڑ دیا اور کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانب کے دستہ پر زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور دوسری جانب کے دستہ پر خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور پیدل دستہ پر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا، انہوں نے وادی کے اندر پناہ لی، اور ایک دستہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا، ”اے ابوہریرہ!“ میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس صرف انصاری آئیں،“ شیبان کے سوا نے یہ اضافہ کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے انصار کو آواز دو۔“ تو انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور قریش نے بھی مختلف قبائل کے دستوں کو جمع کر لیا اور اپنے تابع لوگوں کو جمع کر لیا اور سوچا، ہم ان لوگوں کو آگے بڑھاتے ہیں، اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی، ہم ان کے ساتھ ہوں گے اور اگر ان کو نقصان پہنچا تو ہم ان لوگوں (مسلمانوں) کا مطالبہ مان لیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قریش کے مختلف قبائل کے دستوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھ رہے ہو۔“ پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ارشاد فرمایا، (کہ ان کو مار ڈالو) پھر فرمایا: ”حتی کہ تم آ کر مجھے صفا پر ملو۔“ تو ہم چل پڑے اور ہم میں سے جو شخص کسی کو قتل کرنا چاہتا، اس کو قتل کر ڈالتا اور ان میں سے کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا، (اپنی مدافعت میں کوئی اسلحہ ہم پر نہیں چھوڑتا تھا) اتنے میں ابوسفیان آ گیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قریش کی جمیعت ختم کی جا رہی ہے، آج کے بعد کوئی قریشی نہیں باقی رہے گا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا، اس کو امان ہے۔“ تو انصار ایک دوسرے کو کہنے لگے، ہاں اس آدمی (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اپنی بستی کی محبت اور اپنے خاندان پر شفقت غالب آ گئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تو ہم پر یہ حالت پوشیدہ نہ رہتی تو جب وحی آتی تو کوئی بھی آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا تھا، حتی کہ وحی پوری ہو جاتی تو جب وحی کی آمدن بند ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کے گروہ“ انہوں نے کہا، ہم حاضر ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کہا ہے کہ اس آدمی پر اپنے شہر کی محبت غالب آ گئی ہے۔“ انہوں نے جواب دیا، ایسے ہوا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے، میری زندگی، تمہارے پاس گزرے گی اور مجھے موت تمہارے ہاں آئے گی۔“ وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روتے ہوئے بڑھے اور کہہ رہے تھے، اللہ کی قسم! ہم نے جو کچھ کہا، وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرس و رغبت کی خاطر کہا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کا رسول تمہیں سچا گردانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔“ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ ابوسفیان کے گھر کی طرف بڑھے اور کچھ لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے حتی کہ حجر اسود کی طرف بڑھے، اسے بوسہ دیا، پھر طواف کیا، پھر ایک بت کے پاس آئے، جو بیت اللہ کے پہلو میں تھا، لوگ اس کی عبادت کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک قوس تھی اور آپ نے قوس ایک طرف پکڑی ہوئی تھی تو جب آپ بت کے پاس پہنچے تو اس کی آنکھ میں اس کو چبھونے لگے اور فرما رہے تھے، ”حق آ گیا، باطل مٹ گیا۔“ جب آپ طواف سے فارغ ہوئےم صفا پر پہنچے اور اس کے اوپر چڑھ گئے حتی کہ بیت اللہ پر نظر ڈالی اور اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، اللہ کی حمد بیان کرنے لگے اور جو چاہا وہ دعا مانگنے لگے۔