وحدثنا زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني إياس بن سلمة ، حدثني ابي ، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، فلما واجهنا العدو تقدمت فاعلو ثنية، فاستقبلني رجل من العدو فارميه بسهم فتوارى عني، فما دريت ما صنع ونظرت إلى القوم فإذا هم قد طلعوا من ثنية اخرى، فالتقوا هم وصحابة النبي صلى الله عليه وسلم، فولى صحابة النبي صلى الله عليه وسلم، وارجع منهزما وعلي بردتان متزرا بإحداهما مرتديا بالاخرى، فاستطلق إزاري فجمعتهما جميعا، ومررت على رسول الله صلى الله عليه وسلم منهزما وهو على بغلته الشهباء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقد راى ابن الاكوع فزعا، فلما غشوا رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل عن البغلة ثم قبض قبضة من تراب من الارض ثم استقبل به وجوههم، فقال: شاهت الوجوه فما خلق الله منهم إنسانا إلا ملا عينيه ترابا بتلك القبضة، فولوا مدبرين فهزمهم الله عز وجل، وقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائمهم بين المسلمين ".وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَلَمَّا وَاجَهْنَا الْعَدُوَّ تَقَدَّمْتُ فَأَعْلُو ثَنِيَّةً، فَاسْتَقْبَلَنِي رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرْمِيهِ بِسَهْمٍ فَتَوَارَى عَنِّي، فَمَا دَرَيْتُ مَا صَنَعَ وَنَظَرْتُ إِلَى الْقَوْمِ فَإِذَا هُمْ قَدْ طَلَعُوا مِنْ ثَنِيَّةٍ أُخْرَى، فَالْتَقَوْا هُمْ وَصَحَابَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَلَّى صَحَابَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا وَعَلَيَّ بُرْدَتَانِ مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا مُرْتَدِيًا بِالْأُخْرَى، فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِي فَجَمَعْتُهُمَا جَمِيعًا، وَمَرَرْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْهَزِمًا وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَى ابْنُ الْأَكْوَعِ فَزَعًا، فَلَمَّا غَشُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، فَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْكَ الْقَبْضَةِ، فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ ".
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی جنگ لڑی، جب ہمارا دشمن سے سامنا ہوا تو میں آگے بڑھا پھر میں ایک گھاٹی پر چڑھ جاتا ہوں، میرے سامنے دشمن کا آدمی آیا تو میں اس پر تیر پھینکتا ہوں، وہ مجھ سے چھپ گیا، اس کے بعد مجھے معلوم نہیں اس نے کیا کیا۔ میں نے (اُن) لوگوں کا جائزہ لیا تو دیکھا وہ ایک دوسری گھاٹی کی طرف ظاہر ہوئے، ان کا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا ٹکراؤ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی پیچھے ہٹ گئے اور میں بھی شکست خودرہ لوٹتا ہوں۔ مجھ (میرے جسم) پر دو چادریں تھیں، ان میں سے ایک کا میں نے تہبند باندھا ہوا تھا اور دوسری کو اوڑھ رکھا تھا تو میرا تہبند کھل گیا، میں نے ان دونوں کو اکٹھا کیا اور شکست خوردگی کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، آپ اپنے سفید خچر پر تھے۔ (مجھے دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اکوع کا بیٹا گھبرا کو لوٹ آیا ہے۔" جب وہ ہر طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوئے تو آپ خچر سے نیچے اترے، زمین سے مٹی کی ایک مٹھی لی، پھر اسے سامنے کی طرف سے ان کے شہروں پر پھینکا اور فرمایا: "چہرے بگڑ گئے۔" اللہ نے ان میں سے کسی انسان کو پیدا نہیں کیا تھا مگر اس ایک مٹھی سے اس کی آنکھیں بھر دیں، سو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے، اللہ نے اسی (ایک مٹھی خاک) سے انہیں شکست دی اور (بعد ازاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اموالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیے
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جنگ حنین لڑی تو جب ہم دشمن کے مقابلہ میں آئے، میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پرچڑھ گیا، دشمن کا ایک آدمی میرے سامنے آیا تو میں نے اس پر تیر پھینکا اور وہ مجھ سے چھپ گیا، مجھے پتہ نہیں چلا، اس نے کیا کیا، میں نے دشمن لوگوں پر نظر دوڑائی تو وہ دوسری گھاٹی سے چڑھ چکے تھے تو ان کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے ٹکراؤ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی پشت دکھا گئے اور میں شکست خوردہ لوٹا، میرے اوپر دو چادریں تھیں، ایک تہبند تھی اور دوسری میں اوڑھے ہوئے تھا، میری تہبند (عجلت میں) کھل گئی تو میں نے دونوں کو اکٹھا کر لیا اور میں شکست خوردہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مٹیالے سفید رنگ کے خچر پر سوار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن اکوع گھبراہٹ سے دوچار ہوا ہے۔“ جب دشمن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر آئے، پھر زمین کی مٹی سے ایک مٹھی بھری، پھر اسے دشمن کے چہروں کی طرف پھینکا اور فرمایا: ”چہرے بگڑ گئے (شکست سے رنگ اڑ گئے)“ تو ان میں سے کوئی اللہ کا پیدا کردہ انسان نہیں تھا، جس کی دونوں آنکھیں مٹی سے نہ بھر گئی ہوں، اس ایک مٹھی سے تو وہ شکست کھا کر پیٹھ پھیر گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غنیمتیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4619
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) استَطَلَقَ ازَارَي: بھاگتے ہوئے تہبند کھل گیا، (جس کو میں نے اوپر کی چادر کے ساتھ پکڑ لیا، کیونکہ باندھنے کا موقع نہ تھا۔ (2) مُنهَزِمًا: مَرَرتُ کے فاعل سے حال ہے کہ میں شکست خوردہ گزرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مفعول سے حال نہیں ہے کہ یہ کہا جا سکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شکست کھا گئے تھے۔ (3) شَاهَتِ الوُجُوه: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی نتیجہ میں شکست سے ان کے منہ لٹک گئے، کیونکہ ناکام ہو کر وہ قیدی بن چکے تھے۔