حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت البناني ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي هريرة ، قال: " وفدت وفود إلى معاوية وذلك في رمضان، فكان يصنع بعضنا لبعض الطعام فكان ابو هريرة مما يكثر ان يدعونا إلى رحله، فقلت: الا اصنع طعاما فادعوهم إلى رحلي، فامرت بطعام يصنع ثم لقيت ابا هريرة من العشي، فقلت: الدعوة عندي الليلة، فقال: قلت: نعم، فدعوتهم، فقال ابو هريرة: الا اعلمكم بحديث من حديثكم يا معشر الانصار ثم ذكر فتح مكة، فقال: اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قدم مكة، فبعث الزبير على إحدى المجنبتين، وبعث خالدا على المجنبة الاخرى، وبعث ابا عبيدة على الحسر، فاخذوا بطن الوادي ورسول الله صلى الله عليه وسلم في كتيبة، قال: فنظر فرآني، فقال ابو هريرة، قلت: لبيك يا رسول الله، فقال: لا ياتيني إلا انصاري " زاد غير شيبان، فقال: اهتف لي بالانصار، قال: فاطافوا به ووبشت قريش اوباشا لها واتباعا، فقالوا نقدم هؤلاء، فإن كان لهم شيء كنا معهم، وإن اصيبوا اعطينا الذي سئلنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترون إلى اوباش قريش واتباعهم، ثم قال: بيديه إحداهما على الاخرى، ثم قال: حتى توافوني بالصفا، قال: فانطلقنا فما شاء احد منا ان يقتل احدا إلا قتله، وما احد منهم يوجه إلينا شيئا، قال: فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيحت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم، ثم قال: من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، فقالت الانصار بعضهم لبعض: اما الرجل فادركته رغبة في قريته ورافة بعشيرته، قال ابو هريرة: وجاء الوحي وكان إذا جاء الوحي لا يخفى علينا، فإذا جاء فليس احد يرفع طرفه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ينقضي الوحي، فلما انقضى الوحي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الانصار، قالوا: لبيك يا رسول الله، قال: قلتم اما الرجل فادركته رغبة في قريته؟، قالوا: قد كان ذاك، قال: كلا إني عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله، وإليكم والمحيا محياكم والممات مماتكم، فاقبلوا إليه يبكون، ويقولون: والله ما قلنا الذي قلنا إلا الضن بالله وبرسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم "، قال: فاقبل الناس إلى دار ابي سفيان واغلق الناس ابوابهم، قال: واقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اقبل إلى الحجر فاستلمه، ثم طاف بالبيت، قال: فاتى على صنم إلى جنب البيت كانوا يعبدونه، قال: وفي يد رسول الله صلى الله عليه وسلم قوس وهو آخذ بسية القوس، فلما اتى على الصنم جعل يطعنه في عينه، ويقول: جاء الحق وزهق الباطل، فلما فرغ من طوافه اتى الصفا فعلا عليه حتى نظر إلى البيت ورفع يديه، فجعل يحمد الله ويدعو بما شاء ان يدعو "،حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ، فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي، فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَقُلْتُ: الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَلَا أُعْلِمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ، وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْأُخْرَى، وَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَتِيبَةٍ، قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: لَا يَأْتِينِي إِلَّا أَنْصَارِيٌّ " زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ، فَقَالَ: اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَطَافُوا بِهِ وَوَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَأَتْبَاعًا، فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلَاءِ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ كُنَّا مَعَهُمْ، وَإِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَأَتْبَاعِهِمْ، ثُمَّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَاءَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَهُ، وَمَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَجَاءَ الْوَحْيُ وَكَانَ إِذَا جَاءَ الْوَحْيُ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا، فَإِذَا جَاءَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ، فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ؟، قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ، وَيَقُولُونَ: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ "، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ "،
شیبان بن فروخ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانے نے عبداللہ بن رباح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: کئی وفود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ (عبداللہ بن رباح نے کہا:) ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو ہمیں اکثر اپنی قیام گاہ پر بلاتے تھے۔ ایک (دن) میں نے کہا: میں بھی کیوں نہ کھانا تیار کروں اور سب کو اپنی قیام گاہ پر بلاؤں۔ میں نے کھانا بنانے کا کہہ دیا، پھر شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق احادیث میں سے ایک حدیث نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے مکہ کے فتح ہونے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے، پھر دو میں سے ایک بازو پر زبیر رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور دوسرے بازو پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو، ابوعبیدہ (بن جراح) رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ انہوں نے گھاٹی کے درمیان والا راستہ اختیار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دستے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "ابوہریرہ!" میں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے ساتھ انصاری کے سوا کوئی نہ آئے۔" شیبان کے علاوہ دوسرے راویوں نے اضافہ کیا: آپ نے فرمایا: "میرے لیے انصار کو آواز دو۔" انصار آپ کے اردگرد آ گئے۔ اور قریش نے بھی اپنے اوباش لوگوں اور تابعداروں کو اکٹھا کیا اور کہا: ہم ان کو آگے کرتے ہیں، اگر کوئی چیز (کامیابی) ملی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور اگر ان پر آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا دے دیں گے۔ (دیت، جرمانہ وغیرہ۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم قریش کے اوباشوں اور تابعداروں (ہر کام میں پیروی کرنے والوں) کو دیکھ رہے ہو؟" پھر آپ نے دونوں ہاتھوں سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر (مارتے ہوئے) اشارہ فرمایا: " (ان کا صفایا کر دو، ان کا فتنہ دبا دو)، پھر فرمایا: "یہاں تک کہ تم مجھ سے صفا پر آ ملو۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے، ہم میں سے جو کوئی (کافروں میں سے) جس کسی کو مارنا چاہتا، مار ڈالتا اور کوئی ہماری طرف کسی چیز (ہتھیار) کو آگے تک نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! قریش کی جماعت (کے خون) مباح کر دیے گئے اور آج کے بعد قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنا سابقہ بیان دہراتے ہوئے) فرمایا: "جو شخص ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اس کو امن ہے۔" انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی الفت اور اپنے کنبے والوں پر شفقت آ گئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تھی تو ہم سے مخفی نہ رہتی۔ جب وحی آتی تو وحی (کا نزول) ختم ہونے تک کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی آنکھ نہ اٹھاتا تھا، غرض جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے یہ کہا: اس شخص (کے دل میں) اپنے گاؤں کی الفت آ گئی ہے۔" انہوں نے کہا: یقینا ایسا تو ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمایا: "ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی اور تمہاری طرف (آیا) اب میری زندگی بھی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے۔" یہ سن کر انصار روتے ہوئے آگے بڑھے، وہ کہہ رہے تھے: اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم نے کہا جو کہا محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شدید چاہت (اور ان کی معیت سے محرومی کے خوف) کی وجہ سے کہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔" پھر لوگ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف آ گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس تشریف لے آئے اور اس کو چوما، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں ایک بت کے پاس آئے، لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایک طرف سے پکڑا ہوا تھا، جب آپ بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے: "حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔" جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے لگے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں بہت سے وفد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ٹھکانے پر ساتھیوں کو بکثرت بلاتے تھے، عبداللہ بن رباح کہتے ہیں، میں نے دل میں کہا، میں کھانا کیوں نہ تیار کروں اور ساتھیوں کو اپنے ٹھکانہ پر بلاؤں، تم مجھ سے سبقت لے گئے ہو، میں نے کہا، جی ہاں، میں نے ساتھیوں کو بلایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے، اے گروہ انصار، کیا میں تمہیں تمہارے کارناموں سے ایک کارنامہ نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے فتح مکہ کا ذکر چھیڑ دیا اور کہنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانب کے دستہ پر زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور دوسری جانب کے دستہ پر خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور پیدل دستہ پر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا، انہوں نے وادی کے اندر پناہ لی، اور ایک دستہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا، ”اے ابوہریرہ!“ میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس صرف انصاری آئیں،“ شیبان کے سوا نے یہ اضافہ کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لیے انصار کو آواز دو۔“ تو انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور قریش نے بھی مختلف قبائل کے دستوں کو جمع کر لیا اور اپنے تابع لوگوں کو جمع کر لیا اور سوچا، ہم ان لوگوں کو آگے بڑھاتے ہیں، اگر ان کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی، ہم ان کے ساتھ ہوں گے اور اگر ان کو نقصان پہنچا تو ہم ان لوگوں (مسلمانوں) کا مطالبہ مان لیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم قریش کے مختلف قبائل کے دستوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھ رہے ہو۔“ پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر ارشاد فرمایا، (کہ ان کو مار ڈالو) پھر فرمایا: ”حتی کہ تم آ کر مجھے صفا پر ملو۔“ تو ہم چل پڑے اور ہم میں سے جو شخص کسی کو قتل کرنا چاہتا، اس کو قتل کر ڈالتا اور ان میں سے کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا، (اپنی مدافعت میں کوئی اسلحہ ہم پر نہیں چھوڑتا تھا) اتنے میں ابوسفیان آ گیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قریش کی جمیعت ختم کی جا رہی ہے، آج کے بعد کوئی قریشی نہیں باقی رہے گا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا، اس کو امان ہے۔“ تو انصار ایک دوسرے کو کہنے لگے، ہاں اس آدمی (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اپنی بستی کی محبت اور اپنے خاندان پر شفقت غالب آ گئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور جب آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تو ہم پر یہ حالت پوشیدہ نہ رہتی تو جب وحی آتی تو کوئی بھی آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھتا تھا، حتی کہ وحی پوری ہو جاتی تو جب وحی کی آمدن بند ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کے گروہ“ انہوں نے کہا، ہم حاضر ہیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کہا ہے کہ اس آدمی پر اپنے شہر کی محبت غالب آ گئی ہے۔“ انہوں نے جواب دیا، ایسے ہوا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے، میری زندگی، تمہارے پاس گزرے گی اور مجھے موت تمہارے ہاں آئے گی۔“ وہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روتے ہوئے بڑھے اور کہہ رہے تھے، اللہ کی قسم! ہم نے جو کچھ کہا، وہ اللہ اور اس کے رسول کی حرس و رغبت کی خاطر کہا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کا رسول تمہیں سچا گردانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔“ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ ابوسفیان کے گھر کی طرف بڑھے اور کچھ لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے حتی کہ حجر اسود کی طرف بڑھے، اسے بوسہ دیا، پھر طواف کیا، پھر ایک بت کے پاس آئے، جو بیت اللہ کے پہلو میں تھا، لوگ اس کی عبادت کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک قوس تھی اور آپ نے قوس ایک طرف پکڑی ہوئی تھی تو جب آپ بت کے پاس پہنچے تو اس کی آنکھ میں اس کو چبھونے لگے اور فرما رہے تھے، ”حق آ گیا، باطل مٹ گیا۔“ جب آپ طواف سے فارغ ہوئےم صفا پر پہنچے اور اس کے اوپر چڑھ گئے حتی کہ بیت اللہ پر نظر ڈالی اور اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے، اللہ کی حمد بیان کرنے لگے اور جو چاہا وہ دعا مانگنے لگے۔
من دخل دار أبي سفيان فهو آمن فقالت الأنصار بعضهم لبعض أما الرجل فأدركته رغبة في قريته ورأفة بعشيرته قال أبو هريرة وجاء الوحي وكان إذا جاء الوحي لا يخفى علينا فإذا جاء فليس أحد يرفع طرفه إلى رسول الله حتى ينقضي الوحي فلما انقضى الوحي قال
من دخل دار أبي سفيان فهو آمن ومن ألقى السلاح فهو آمن ومن أغلق بابه فهو آمن فقالت الأنصار أما الرجل فقد أخذته رأفة بعشيرته ورغبة في قريته ونزل الوحي على رسول الله قال قلتم أما الرجل فقد أخذته رأفة بعشيرته ورغبة في قريته ألا فما اسمي إذا
من دخل دارا فهو آمن ومن ألقى السلاح فهو آمن وعمد صناديد قريش فدخلوا الكعبة فغص بهم وطاف النبي وصلى خلف المقام ثم أخذ بجنبتي الباب فخرجوا فبايعوا النبي على الإسلام
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4622
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس، شام میں بہت سے وفد پہنچے اور مسافر ہونے کی بنا پر، اپنے ٹھکانہ پر ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے اور اس میں ایک دوسرے سے منافست و مسابقت کرتے۔ (2) أَلَا أُعْلِمُكُمْ: (کیا میں تمہیں آگاہ نہ کروں) کھانا ابھی تیار نہیں ہوا تھا، اس کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ کی درخواست پر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انصار کے ایک کارنامے کا ذکر چھیڑ دیا۔ (3) إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ: لشکر کے دو جانب۔ (4) ميمنة وميسرة (دایاں، بایاں) جن کے درمیان قلب ہوتا ہے۔ عَلَى الْحُسَّرِ: جن کے پاس زرعہ نہ تھی، مراد پیدل دستہ ہے۔ (5) اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار پر اعتماد کرتے ہوئے، ان کے مقام و مرتبہ کی رفعت و بلندی کا اظہار کرنے کے لیے، ان کو آواز دلوائی۔ وبشت: جمع کر لیا، اکٹھا کر لیا۔ (6) الأوْبَاشِ: وبش کی جمع ہے، مختلف قبائل کی ٹولیاں۔ (7) نقدم هؤلاء: ہم مسلمانوں سے جنگ کے لیے مختلف قبائل کے ان دستوں کو آگے کریں تاکہ اگر یہ مسلمانوں کے سامنے ڈٹ جائیں تو ہم آگے بڑھ کر ان کو کامیاب کریں اور اگر یہ لوگ شکست کھا جائیں تو ہم مسلمانوں کا مطالبہ قبول کر لیں، (8) ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں سے، کافروں کے اتحاد و اجتماع کا اشارہ کر کے، صبر و استقلال، اور ثابت قدم رہنے کی تلقین کی، یہ اشارہ کیا ان کو پیس کر رکھ دو، تاکہ یہ آئندہ سر نہ اٹھا سکیں۔ (9) ومَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا: ان میں سے کوئی ایک اپنے دفاع کے لیے اپنا اسلحہ استعمال نہ کر سکا، ان میں کوئی ایک اسلحہ کا رخ ہماری طرف نہ کر سکا۔ (10) أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ: قریش و عرب جماعت کو خضر اور سوار سے تعبیر کرتے ہیں، مقصد یہ تھا کہ قریش کی جماعت کو تہ تیغ کر دیا جائے گا اور وہ بچ نہیں سکیں گے۔ (11) أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ: انصار نے جب یہ دیکھا کہ آپ نے اہل مکہ کو امان دے دی ہے اور ان کو قتل کرنے سے روک دیا ہے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ اب آپ ہمیشہ کے لیے اپنے شہر مکہ میں، اپنے قبیلہ و خاندان قریش کے ساتھ اقامت اختیار کر لیں گے اور ہم آپ کی رفاقت کی سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائیں گے، اس لیے آپ نے فرمایا: المحيا محياكم، والمات مماتكم: اب زندگی اور موت تمہارے ہاں ہی ہے۔ (12) ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بلا احرام داخل ہوئے تھے، جس سے ثابت ہوتا ہے، اگر انسان کی حج یا عمرہ کی نیت نہ ہو تو وہ بلا احرام مکہ میں داخل ہو سکتا ہے، شوافع اور حنابلہ کا یہی موقف ہے، لیکن احناف اور مالکیہ کے نزدیک احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل نہیں ہوا جا سکتا اور فتح مکہ کے وقت احرام کے بغیر داخلہ، فتح مکہ سے خاص ہے، فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف اور سعی کر کے عمرہ کیا۔ (13) بِسِيَةِ الْقَوْسِ: کمان کا مڑا ہوا ایک کونہ یا طرف، اس سے آپ نے ان کے بت کی آنکھوں میں کچوکے لگائے، تاکہ پتہ چل سکے جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا، وہ دوسروں کے نفع و نقصان کا مالک کیسے بن سکتا ہے؟ اور اس سے ان کی تذلیل اور رسوائی بھی ہو کہ اب یہ لوگ اپنے معبود کو بھی بچا نہیں سکتے۔ فوائد ومسائل: جب شعبان 8ھ میں بنوبکر نے بدعہدی کرتے ہوئے، رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا تو قریش نے اس حملہ میں ہتھیاروں سے ان کی مدد کی حتی کہ رات کی تاریکی کی آڑ میں ان کے کچھ آدمی جنگ میں شریک بھی ہوئے، بنو خزاعہ کے شاعر نے انتہائی مؤثر اور فصیح و بلیغ اشعار میں آپ سے مدد کی درخواست کی، 10 رمضان المبارک 8ھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار (10000) ساتھیوں کے ساتھ مکہ کا رخ کیا، ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی، خالد بن ولید کو اپنے داہنے پہلو پر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ مکہ کے زیریں حصے سے اس میں داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی سامنے آئے تو اسے کاٹ کر رکھ دیں، یہاں تک کہ صفا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملیں اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بائیں پہلو پر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ مکے میں بالائی حصہ سے داخل ہون اور جحون میں آپ کا جھنڈا گاڑ کر آپ کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادہ پر مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ اختیار کریں، یہاں تک کہ مکہ میں آپ کے آگے اتریں، ان ہدایات کے بعد تمام دستے اپنے اپنے مقررہ راستوں پر چل پڑے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے سامنے جو مشرک بھی آیا، اسے قتل کر ڈالا گیا، خندمہ پہنچ کر ان کی مڈ بھیڑ قریش کے اوباشوں سے ہوئی، معمولی سی جھڑپ میں بارہ (12) مشرک کٹ گئے اور اس کے بعد مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ مکہ کے گلی کوچوں کو روندتے ہوئے، کوہ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے، تفصیل کے لے دیکھئے، غزوہ فتح مکہ، الرحیق المختوم۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4622
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3024
´فتح مکہ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابوعبیدہ ابن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو گھوڑوں پر سوار رہنے دیا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تم انصار کو پکار کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلا دیں“، اتنے میں ایک منادی نے آواز دی: آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے“، قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3024]
فوائد ومسائل: صلح پر نہ کوئی گفتگو ہوئی اور نہ شرائط طے ہویئں۔ آپ نے مکہ آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ تاکہ مقابلہ اور حرمت والی اس سرزمین میں خونریزی نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اقدام کیا اس سے بڑی خونریزی کا امکان یکسر ختم ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا مال یا جایئداد لینے کی بجائے فتح مکہ کے بعد حاصل ہونے والے سارے غنائم انہی میں تقسیم کر دیے اور کمال رحمت اور حکمت سے ان کو بدل وجان اسلام میں داخل کر دیا۔ ان کے علاوہ سارے عرب میں جس قبیلے نے خود آکر اسلام قبول کیا۔ ان میں سے کسی کے مال کو فے قرار نہیں دیا گیا۔ اہل مکہ سمیت ان سب پر زکواۃ وعشر ہی فرض کیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3024
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4624
عبداللہ بن رباح بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہمارے ہمراہ تھے، اور ہم میں سے ہر ایک ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار کرتا تھا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ! آج میری باری ہے تو سارے ساتھی میرے ٹھکانہ پر آ گئے، ابھی ہمارا کھانا پکا نہیں تھا تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ! کاش ہمارا کھانا پکنے تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4624]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) البياذقه: پیدل دستہ۔ (2) فَمَاأَشرَفَ يَوءمَئِذٍلَّهُم إِلَّا أَنَامُوه: جو بھی اس دن ان کے سامنے آیا، اسے انہوں نے ڈھیر کر دیا، اس سے جمہور ابوحنیفہ، مالک اور احمد رحمہم اللہ نے یہ کہا ہے کہ مکہ بزور بازو فتح ہوا ہے، لیکن امام شافعی کے نزدیک مکہ صلح کے نتیجہ میں فتح ہوا ہے۔ (3) اَبِيْدَت خضراء قريش: قریش کی جماعت تباہ و برباد کر دی جا رہی ہے، ان سے کوئی بچ نہیں سکے گا، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ قوت و طاقت کے بل بوتہ پر فتح ہوا ہے۔