حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، حدثنا يحيي بن حسان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، قال: " وفدنا إلى معاوية بن ابي سفيان، وفينا ابو هريرة فكان كل رجل منا يصنع طعاما يوما لاصحابه، فكانت نوبتي، فقلت يا ابا هريرة: اليوم نوبتي، فجاءوا إلى المنزل ولم يدرك طعامنا، فقلت يا ابا هريرة : لو حدثتنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يدرك طعامنا، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح، فجعل خالد بن الوليد على المجنبة اليمنى، وجعل الزبير على المجنبة اليسرى، وجعل ابا عبيدة على البياذقة وبطن الوادي، فقال يا ابا هريرة: ادع لي الانصار، فدعوتهم فجاءوا يهرولون، فقال يا معشر الانصار: هل ترون اوباش قريش؟، قالوا: نعم، قال: انظروا إذا لقيتموهم غدا ان تحصدوهم حصدا، واخفى بيده ووضع يمينه على شماله، وقال: موعدكم الصفا، قال: فما اشرف يومئذ لهم احد إلا اناموه، قال وصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم الصفا، وجاءت الانصار، فاطافوا بالصفا فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيدت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم، قال ابو سفيان:، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، ومن القى السلاح فهو آمن، ومن اغلق بابه فهو آمن، فقالت الانصار: اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته، ونزل الوحي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلتم اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته، الا فما اسمي إذا ثلاث مرات انا محمد عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله، وإليكم فالمحيا محياكم والممات مماتكم، قالوا: والله ما قلنا إلا ضنا بالله ورسوله، قال: فإن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم ".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ: " وَفَدْنَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَفِينَا أَبُو هُرَيْرَةَ فَكَانَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَصْنَعُ طَعَامًا يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ، فَكَانَتْ نَوْبَتِي، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: الْيَوْمُ نَوْبَتِي، فَجَاءُوا إِلَى الْمَنْزِلِ وَلَمْ يُدْرِكْ طَعَامُنَا، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ : لَوْ حَدَّثْتَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُدْرِكَ طَعَامُنَا، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَجَعَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُمْنَى، وَجَعَلَ الزُّبَيْرَ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْبَيَاذِقَةِ وَبَطْنِ الْوَادِي، فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَجَاءُوا يُهَرْوِلُونَ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ: هَلْ تَرَوْنَ أَوْبَاشَ قُرَيْشٍ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرُوا إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ غَدًا أَنْ تَحْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَأَخْفَى بِيَدِهِ وَوَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ، وَقَالَ: مَوْعِدُكُمْ الصَّفَا، قَالَ: فَمَا أَشْرَفَ يَوْمَئِذٍ لَهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَامُوهُ، قَالَ وَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا، وَجَاءَتْ الْأَنْصَارُ، فَأَطَافُوا بِالصَّفَا فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيدَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، أَلَا فَمَا اسْمِي إِذًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ فَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا إِلَّا ضِنًّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ ".
ہمیں حماد بن سلمہ نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ثابت نے عبداللہ بن رباح سے خبر دی، انہوں نے کہا: ہم بطور وفد حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور ہم لوگوں میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، ہم میں سے ہر آدمی ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا بناتا، ایک دن میری باری تھی، میں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! آج میری باری ہے، وہ سب میرے ٹھکانے پر آئے اور ابھی کھانا نہیں آیا تھا۔ میں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ! کاش آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنائیں یہاں تک کہ کھانا آ جائے۔ انہوں نے کہا: ہم فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دائیں بازو (میمنہ) پر (امیر) مقرر کیا اور زبیر رضی اللہ عنہ کو بائیں بازو (میسرہ) پر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادوں پر اور وادی کے اندر (کے راستے) پر تعینات کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابوہریرہ! انصار کو بلاؤ۔" میں نے ان کو بلایا، وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انصار کے لوگو! کیا تم قریش کے اوباشوں کو دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیکھو! کل جب تمہارا ان سے سامنا ہو تو ان کو اس طرح کاٹ دینا جس طرح فصل کاٹی جاتی ہے" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ رکھتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا اور داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔ اور فرمایا: "اب تم سے ملاقات کا وعدہ کوہِ صفا پر ہے۔" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو اس روز جس کسی نے سر اٹھایا، انہوں نے اس کو سلا دیا، (یعنی مار ڈالا۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھے، انسار آئے، انہوں نے صفا کو گھیر لیا، اتنے میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! قریش کی جمعیت مٹا دی گئی، آج سے قریش نہ رہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں چلا گیا اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو بھی امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کے لے اس کو بھی امن ہے۔" انصار نے کہا: آپ پر اپنے عزیزوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگوں نے کہا: مجھ پر کنبے والوں کی محبت اور اپنے شہر کی الفت غالب آ گئی ہے، دیکھو! پھر (اس صورت میں) میرا نام کیا ہو گا؟" آپ نے تین بار فرمایا:۔۔" میں محمد اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ کے لیے تمہاری طرف ہجرت کی، تو اب زندگی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت تمہاری موت (کے ساتھ) ہے۔" انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید چاہت (اور آپ کی معیت سے محرومی کے خوف) کے علاوہ کسی وجہ سے نہیں کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو اللہ اور اس کا رسول دونوں تم کو سچا جانتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں
عبداللہ بن رباح بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہمارے ہمراہ تھے، اور ہم میں سے ہر ایک ایک دن اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا تیار کرتا تھا، جب میری باری آئی تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ! آج میری باری ہے تو سارے ساتھی میرے ٹھکانہ پر آ گئے، ابھی ہمارا کھانا پکا نہیں تھا تو میں نے کہا، اے ابوہریرہ! کاش ہمارا کھانا پکنے تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں سنائیں تو انہوں نے کہا، ہم فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں پہلو پر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا اور بائیں پہلو پر زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر فرمایا اور پیدل دستہ اور بطن وادی پر ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو متعین کیا اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا: ”اے ابوہریرہ میرے پاس انصار کو بلاؤ۔“ تو میں نے ان کو آواز دی اور وہ دوڑتے ہوئے آئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کی جماعت! کیا تم قریش کے اوباش (کمینوں، ذلیلوں) کو دیکھ رہے ہو؟“ انہوں نے جواب دیا، جی ہاں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھ لو، کل جب تمہارا ان سے مقابلہ ہو تو ان کو کھیتی کی طرح کاٹ کر رکھ دینا۔“ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کرتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا: ”(خالد اور ان کے ساتھیوں کو) تمہارے ساتھ ملاقات کا وعدہ کوہ صفا پر ہے۔“ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اسی دن جو بھی ان کے سامنے آیا، اسے انہوں نے سلا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھ گئے اور انصار نے آ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیا اور ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ آ کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! قریش کی جماعت تباہ و برباد کر دی گئی، آج کے بعد کوئی قریشی نہیں بچے گا، ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو گا، اسے امان ہو گا اور جو ہتھیار ڈال دے گا، وہ بھی محفوظ ہو گا اور جو اپنا دروازہ بند کر لے گا، اسے بھی امن حاصل ہے۔“ اس پر انصار نے کہا، ہاں اس آدمی پر اپنے قبیلہ کی شفقت غالب آ گئی ہے اور اپنی بستی (وطن) کی محبت غالب آ گئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کہا ہے، ہاں اس آدمی پر اپنے خاندان سے پیار اور اپنی بستی کا شوق غالب آ گیا ہے، خبردار! تب میرا نام کیا ہو گا (تین دفعہ فرمایا) میں محمد، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی ہے، زندگی اور موت تمہارے ہاں ہی ہو گی، یعنی میری زندگی تمہاری زندگی اور میری موت تمہاری موت ہے۔" انصار نے کہا، اللہ کی قسم! ہم نے محض اللہ اور اس کے رسول کی حرص و رغبت کی بنا پر کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں، (معذور سمجھتے ہیں)“
من دخل دار أبي سفيان فهو آمن فقالت الأنصار بعضهم لبعض أما الرجل فأدركته رغبة في قريته ورأفة بعشيرته قال أبو هريرة وجاء الوحي وكان إذا جاء الوحي لا يخفى علينا فإذا جاء فليس أحد يرفع طرفه إلى رسول الله حتى ينقضي الوحي فلما انقضى الوحي قال
من دخل دار أبي سفيان فهو آمن ومن ألقى السلاح فهو آمن ومن أغلق بابه فهو آمن فقالت الأنصار أما الرجل فقد أخذته رأفة بعشيرته ورغبة في قريته ونزل الوحي على رسول الله قال قلتم أما الرجل فقد أخذته رأفة بعشيرته ورغبة في قريته ألا فما اسمي إذا
من دخل دارا فهو آمن ومن ألقى السلاح فهو آمن وعمد صناديد قريش فدخلوا الكعبة فغص بهم وطاف النبي وصلى خلف المقام ثم أخذ بجنبتي الباب فخرجوا فبايعوا النبي على الإسلام
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4624
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) البياذقه: پیدل دستہ۔ (2) فَمَاأَشرَفَ يَوءمَئِذٍلَّهُم إِلَّا أَنَامُوه: جو بھی اس دن ان کے سامنے آیا، اسے انہوں نے ڈھیر کر دیا، اس سے جمہور ابوحنیفہ، مالک اور احمد رحمہم اللہ نے یہ کہا ہے کہ مکہ بزور بازو فتح ہوا ہے، لیکن امام شافعی کے نزدیک مکہ صلح کے نتیجہ میں فتح ہوا ہے۔ (3) اَبِيْدَت خضراء قريش: قریش کی جماعت تباہ و برباد کر دی جا رہی ہے، ان سے کوئی بچ نہیں سکے گا، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ قوت و طاقت کے بل بوتہ پر فتح ہوا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4624
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3024
´فتح مکہ کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے زبیر بن عوام، ابوعبیدہ ابن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کو گھوڑوں پر سوار رہنے دیا، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تم انصار کو پکار کر کہہ دو کہ اس راہ سے جائیں، اور تمہارے سامنے جو بھی آئے اسے (موت کی نیند) سلا دیں“، اتنے میں ایک منادی نے آواز دی: آج کے دن کے بعد قریش نہیں رہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو گھر میں رہے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے“، قریش کے سردار خانہ کعبہ کے اندر چلے گئے تو خانہ کعبہ ان سے بھر گیا، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3024]
فوائد ومسائل: صلح پر نہ کوئی گفتگو ہوئی اور نہ شرائط طے ہویئں۔ آپ نے مکہ آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ تاکہ مقابلہ اور حرمت والی اس سرزمین میں خونریزی نہ ہو۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اقدام کیا اس سے بڑی خونریزی کا امکان یکسر ختم ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا مال یا جایئداد لینے کی بجائے فتح مکہ کے بعد حاصل ہونے والے سارے غنائم انہی میں تقسیم کر دیے اور کمال رحمت اور حکمت سے ان کو بدل وجان اسلام میں داخل کر دیا۔ ان کے علاوہ سارے عرب میں جس قبیلے نے خود آکر اسلام قبول کیا۔ ان میں سے کسی کے مال کو فے قرار نہیں دیا گیا۔ اہل مکہ سمیت ان سب پر زکواۃ وعشر ہی فرض کیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3024
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4622
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماہ رمضان میں بہت سے وفد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تھے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ٹھکانے پر ساتھیوں کو بکثرت بلاتے تھے، عبداللہ بن رباح کہتے ہیں، میں نے دل میں کہا، میں کھانا کیوں نہ تیار کروں اور ساتھیوں کو اپنے ٹھکانہ پر بلاؤں، تم مجھ سے سبقت لے گئے ہو، میں نے کہا، جی ہاں، میں نے ساتھیوں کو بلایا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے، اے گروہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4622]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس، شام میں بہت سے وفد پہنچے اور مسافر ہونے کی بنا پر، اپنے ٹھکانہ پر ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے اور اس میں ایک دوسرے سے منافست و مسابقت کرتے۔ (2) أَلَا أُعْلِمُكُمْ: (کیا میں تمہیں آگاہ نہ کروں) کھانا ابھی تیار نہیں ہوا تھا، اس کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ کی درخواست پر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انصار کے ایک کارنامے کا ذکر چھیڑ دیا۔ (3) إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ: لشکر کے دو جانب۔ (4) ميمنة وميسرة (دایاں، بایاں) جن کے درمیان قلب ہوتا ہے۔ عَلَى الْحُسَّرِ: جن کے پاس زرعہ نہ تھی، مراد پیدل دستہ ہے۔ (5) اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار پر اعتماد کرتے ہوئے، ان کے مقام و مرتبہ کی رفعت و بلندی کا اظہار کرنے کے لیے، ان کو آواز دلوائی۔ وبشت: جمع کر لیا، اکٹھا کر لیا۔ (6) الأوْبَاشِ: وبش کی جمع ہے، مختلف قبائل کی ٹولیاں۔ (7) نقدم هؤلاء: ہم مسلمانوں سے جنگ کے لیے مختلف قبائل کے ان دستوں کو آگے کریں تاکہ اگر یہ مسلمانوں کے سامنے ڈٹ جائیں تو ہم آگے بڑھ کر ان کو کامیاب کریں اور اگر یہ لوگ شکست کھا جائیں تو ہم مسلمانوں کا مطالبہ قبول کر لیں، (8) ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں سے، کافروں کے اتحاد و اجتماع کا اشارہ کر کے، صبر و استقلال، اور ثابت قدم رہنے کی تلقین کی، یہ اشارہ کیا ان کو پیس کر رکھ دو، تاکہ یہ آئندہ سر نہ اٹھا سکیں۔ (9) ومَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا: ان میں سے کوئی ایک اپنے دفاع کے لیے اپنا اسلحہ استعمال نہ کر سکا، ان میں کوئی ایک اسلحہ کا رخ ہماری طرف نہ کر سکا۔ (10) أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ: قریش و عرب جماعت کو خضر اور سوار سے تعبیر کرتے ہیں، مقصد یہ تھا کہ قریش کی جماعت کو تہ تیغ کر دیا جائے گا اور وہ بچ نہیں سکیں گے۔ (11) أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ: انصار نے جب یہ دیکھا کہ آپ نے اہل مکہ کو امان دے دی ہے اور ان کو قتل کرنے سے روک دیا ہے تو انہوں نے یہ سمجھا کہ اب آپ ہمیشہ کے لیے اپنے شہر مکہ میں، اپنے قبیلہ و خاندان قریش کے ساتھ اقامت اختیار کر لیں گے اور ہم آپ کی رفاقت کی سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائیں گے، اس لیے آپ نے فرمایا: المحيا محياكم، والمات مماتكم: اب زندگی اور موت تمہارے ہاں ہی ہے۔ (12) ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بلا احرام داخل ہوئے تھے، جس سے ثابت ہوتا ہے، اگر انسان کی حج یا عمرہ کی نیت نہ ہو تو وہ بلا احرام مکہ میں داخل ہو سکتا ہے، شوافع اور حنابلہ کا یہی موقف ہے، لیکن احناف اور مالکیہ کے نزدیک احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل نہیں ہوا جا سکتا اور فتح مکہ کے وقت احرام کے بغیر داخلہ، فتح مکہ سے خاص ہے، فتح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف اور سعی کر کے عمرہ کیا۔ (13) بِسِيَةِ الْقَوْسِ: کمان کا مڑا ہوا ایک کونہ یا طرف، اس سے آپ نے ان کے بت کی آنکھوں میں کچوکے لگائے، تاکہ پتہ چل سکے جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا، وہ دوسروں کے نفع و نقصان کا مالک کیسے بن سکتا ہے؟ اور اس سے ان کی تذلیل اور رسوائی بھی ہو کہ اب یہ لوگ اپنے معبود کو بھی بچا نہیں سکتے۔ فوائد ومسائل: جب شعبان 8ھ میں بنوبکر نے بدعہدی کرتے ہوئے، رات کی تاریکی میں بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا تو قریش نے اس حملہ میں ہتھیاروں سے ان کی مدد کی حتی کہ رات کی تاریکی کی آڑ میں ان کے کچھ آدمی جنگ میں شریک بھی ہوئے، بنو خزاعہ کے شاعر نے انتہائی مؤثر اور فصیح و بلیغ اشعار میں آپ سے مدد کی درخواست کی، 10 رمضان المبارک 8ھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار (10000) ساتھیوں کے ساتھ مکہ کا رخ کیا، ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی، خالد بن ولید کو اپنے داہنے پہلو پر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ مکہ کے زیریں حصے سے اس میں داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی سامنے آئے تو اسے کاٹ کر رکھ دیں، یہاں تک کہ صفا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملیں اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بائیں پہلو پر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ مکے میں بالائی حصہ سے داخل ہون اور جحون میں آپ کا جھنڈا گاڑ کر آپ کی آمد تک وہیں ٹھہرے رہیں، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادہ پر مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ اختیار کریں، یہاں تک کہ مکہ میں آپ کے آگے اتریں، ان ہدایات کے بعد تمام دستے اپنے اپنے مقررہ راستوں پر چل پڑے، حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے سامنے جو مشرک بھی آیا، اسے قتل کر ڈالا گیا، خندمہ پہنچ کر ان کی مڈ بھیڑ قریش کے اوباشوں سے ہوئی، معمولی سی جھڑپ میں بارہ (12) مشرک کٹ گئے اور اس کے بعد مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ مکہ کے گلی کوچوں کو روندتے ہوئے، کوہ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے، تفصیل کے لے دیکھئے، غزوہ فتح مکہ، الرحیق المختوم۔