حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا ابو عامر، قال: حدثنا ابن المبارك، عن يحيى بن ابي كثير قال: حدثني حية التميمي، ان اباه اخبره، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا شيء في الهام، واصدق الطيرة الفال، والعين حق.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي حَيَّةُ التَّمِيمِيُّ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”لَا شَيْءَ فِي الْهَامِّ، وَأَصْدَقُ الطِّيَرَةِ الْفَأْلُ، وَالْعَيْنُ حَقٌّ.“
سیدنا حابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اُلو کوئی چیز نہیں، اور سب سے سچا شگون نیک فال ہے، اور نظر کا لگ جانا برحق ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: أخرجه الترمذي، كتاب الطب: 2061 - انظر الصحيحة: 78، 782، 785، 789، 2924»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 914
فوائد ومسائل: (۱)الو کے بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں جن میں سے دو زیادہ مشہور ہیں:زمانہ جاہلیت میں لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ جب کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کے سر سے ایک الو نکلتا ہے جو اس کی قبر کے ارد گرد چکر لگاتا ہے اور کہتا ہے مجھے (بدلے کا خون)پلاؤ، مجھے پلاؤ۔ جب تک اس کا بدلا نہ لیا جائے وہ واپس نہیں جاتا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس کی روح یا ہڈیاں الو کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور سات دن تک یہ پکارتی رہتی ہیں اور بعدازاں واپس چلی جاتی ہیں۔ اسلام نے اس کی تردید فرمائی اور واضح کیا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ (۲) بدشگونی اور فال کی تفصیل گزشتہ حدیث میں گزر چکی ہے اور جہاں تک نظر لگ جانے کا تعلق ہے تو یہ برحق امر ہے۔ یہ کبھی حسد کی وجہ سے ہوتی ہے اور کبھی کسی چیز کے اچھا لگنے سے بھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے شریعت نے کسی چیز کے اچھا لگنے پر ماشاء اللہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ آپ نے فرمایا:میری امت کی اکثر اموات اللہ کی تقدیر کے بعد نظر لگنے سے ہوں گی۔ (حسن، مسند ابي داود طیالسي:۱۷۶۰، السنة ابن ابي عاصم:۳۱۱، مجمع الزوائد:۵؍ ۱۰۶)۔ اس لیے اس سے بچاؤ کے لیے مسنون اذکار اور آخری تینوں قل پڑھنے اور ان کا دم کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 914