حدثنا مسلم، قال: حدثنا هشام، قال: حدثنا قتادة، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: ”لا عدوى، ولا طيرة، ويعجبني الفال الصالح، الكلمة الحسنة.“حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا عَدْوَى، وَلاَ طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الْفَأْلُ الصَّالِحُ، الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)”بیماری متعدی ہونے اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں، اور مجھے تو نیک فال، یعنی اچھا کلمہ سن کر نیک شگون لینا پسند ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الطب، باب الفال: 5756 و مسلم: 2224 و أبوداؤد: 3916 و الترمذي: 1615 و ابن ماجه: 3537»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 913
فوائد ومسائل: (۱)کوئی بیماری از خود متعدی نہیں ورنہ پہلے کو بیماری کس نے لگائی ہے۔ جراثیم کا منتقل ہونا اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے، از خود ان میں یہ تأثیر نہیں۔ بسا اوقات ساتھ رہنے والا محفوظ رہتا ہے اور دور والا متأثر ہو جاتا ہے۔ تاہم وہم سے بچنے کے لیے ایسے مریضوں سے دور رہنے کا حکم ہے تاکہ عقیدہ خراب نہ ہو۔ (۲) بری چیز یا برا کلمہ سن کر دل میں وہم پیدا ہونا فطری بات ہے، تاہم اس وجہ سے اپنے کام سے رکنا مسلمان کے لیے ناجائز ہے۔ البتہ اچھا کلمہ سن کر نیک شگون لینا پسندیدہ امر ہے بشرطیکہ وہ سفر یا کام جائز اور مباح ہو۔ اگر سفر نافرمانی کا ہے یا کام حرام ہے تو وہ اچھا کلمہ شیطان کی طرف سے ہوگا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 913