حدثنا حجاج، وآدم، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”عرضت علي الامم بالموسم ايام الحج، فاعجبني كثرة امتي، قد ملاوا السهل والجبل، قالوا: يا محمد، ارضيت؟ قال: نعم، اي رب، قال: فإن مع هؤلاء سبعين الفا يدخلون الجنة بغير حساب، وهم الذين لا يسترقون ولا يكتوون، ولا يتطيرون، وعلى ربهم يتوكلون“، قال عكاشة: فادع الله ان يجعلني منهم، قال: ”اللهم اجعله منهم“، فقال رجل آخر: ادع الله يجعلني منهم، قال: ”سبقك بها عكاشة“. حدثنا موسى، قال: حدثنا حماد، وهمام، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وساق الحديث.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، وَآدَمُ، قَالاَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ بِالْمَوْسِمِ أَيَّامَ الْحَجِّ، فَأَعْجَبَنِي كَثْرَةُ أُمَّتِي، قَدْ مَلَأُوا السَّهْلَ وَالْجَبَلَ، قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، أَرَضِيتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَيْ رَبِّ، قَالَ: فَإِنَّ مَعَ هَؤُلاَءِ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَهُمُ الَّذِينَ لاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَكْتَوُونَ، وَلاَ يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ“، قَالَ عُكَّاشَةُ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: ”اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ“، فَقَالَ رَجُلٌ آخَرُ: ادْعُ اللَّهَ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: ”سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ“. حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، وَهَمَّامٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایامِ حج کے موسم میں مجھ پر ساری امتیں (خواب میں) پیش کی گئیں تو میں اپنی امت کی کثرت پر بہت خوش ہوا جس سے صحراء اور پہاڑ بھرے ہوئے تھے۔ فرشتوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ خوش ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ اے میرے رب! اللہ تعالیٰٰ نے فرمایا: ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہوں گے جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے، اور وہ، وہ ہوں گے جو دم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے، جسم کو داغ نہیں لگواتے، بدشگونی نہیں لیتے، اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔“ سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (اللہ کے رسول!) میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰٰ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے ان میں سے کر دے۔“ ایک اور شخص نے عرض کیا: میرے لیے بھی دعا کر دیں کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ اس بارے میں تم سے سبقت لے گیا ہے۔“ ایک دوسرے طریق سے بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اسی طرح مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أحمد: 4339 و الطيالسي: 350 و أبويعلي: 5319 و ابن حبان: 6084 و الحاكم: 460/4 و البخاري: 5705 و مسلم: 216 من حديث ابن عباس»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 911
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے بدشگونی نہ لینے کی فضیلت ثابت ہوئی، نیز معلوم ہوا کہ جس طرح امور کو بجا لانا باعث ثواب ہے اسی طرح ترک معصیت بھی باعث اجر ہے۔ (۲) سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کے لیے آپ نے دعا فرمائی بلکہ ایک روایت کے مطابق ان کے یقینی طور پر اس گروہ میں سے ہونے کا ذکر ہے جبکہ دوسرے صحابی کے لیے آپ نے دعا نہیں فرمائی۔ اس کی مختلف توجیہات کی گئی ہیں، راجح بات یہ ہے کہ وحی کے ذریعے آپ کو انہی کے لیے دعا کی اجازت ملی۔ اور ویسے بھی اگر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا تو ہر شخص دعا کی درخواست کرتا۔ (۳) بزرگوں اور نیک لوگوں سے دعا کروانا مستحب ہے جیسا کہ حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کیا۔ (۴) جو شخص از خود دم کرلیتا ہے یا کوئی شخص اسے مطالبہ کیے بغیر ہی دم کر دیتا ہے تو وہ ان شاء اللہ اس فضیلت سے خارج نہیں ہوگا۔ صحیح مسلم میں ے کہ وہ دم نہیں کرتے اور نہ دم کراتے ہیں۔ (صحیح مسلم:۲۲۰)امام نووی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ایسا دم ہے جو قرآن و سنت کے علاوہ ہو۔ (۵) ستر ہزار کے ساتھ پھر ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار بھی ہوں گے مزید برآں اللہ عزوجل تین ”لپیں“ بھر کر بھی ڈالے گا۔ (الصحیحة للالباني، ح:۲۱۷۹)اللّٰهم اجعلنا منهم۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 911