حدثنا الحكم بن نافع، قال: اخبرنا شعيب، يعني: عن الزهري قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، ان ابا هريرة قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا طيرة، وخيرها الفال“، قالوا: وما الفال؟ قال: ”كلمة صالحة يسمعها احدكم.“حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، يَعْنِي: عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”لَا طِيَرَةَ، وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ“، قَالُوا: وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: ”كَلِمَةٌ صَالِحَةٌ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بدشگونی کوئی چیز نہیں، اس میں سے بہتر فال ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: فال کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا کلمہ جو تم میں سے کوئی سن لے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الطب، باب الفال: 5755 و مسلم: 2223»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 910
فوائد ومسائل: (۱)طیرہ بدشگونی کو کہتے ہیں کہ برا گمان رکھنا، اس میں اللہ تعالیٰ سے یہ گمان بد رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی مصیبت ڈالے گا حالانکہ اس کا کوئی مضبوط سبب نہیں ہوتا۔ اور فال عموماً اچھے گمان کے لیے بولا جاتا ہے، تاہم برے شگون کے لیے بھی یہ لفظ بولتے ہیں۔ (۲) زمانہ جاہلیت میں لوگ سفر شروع کرنے سے پہلے پرندے کو اڑاتے۔ اگر دائیں طرف اڑتا تو اچھا شگون لے کر سفر شروع کرتے اور اگر بائیں طرف اڑتا تو بدشگونی کی وجہ سے سفر کا آغاز نہ کرتے، گویا کہ پرندے کو اچھے یا برے کا علم ہے اور یوں نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں باتیں شرکیہ ہیں۔ (۳) فال یہ ہے کہ آپ کسی آدمی سے ملیں اور اس کا نام بہت اچھا ہو تو آپ یہ فال لیں کہ باقی معاملات بھی آسان ہوں گے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر سہیل بن عمرو کی مشرکین کی طرف سے آمد پر نیک فال لی کہ اب تمہارا معاملہ آسان ہو جائے گا کیونکہ سہیل، سہل سے ہے جس کے معنی آسانی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اچھا شگون لینے میں کوئی حرج نہیں، تاہم بدشگونی لے کر اس وجہ سے کام سے رک جانا شرک ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 910