حدثنا ابو نعيم الفضل، عن سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن عيسى بن عاصم، عن زر بن حبيش، عن عبد الله، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”الطيرة شرك، وما منا، ولكن الله يذهبه بالتوكل.“حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وَمَا مِنَّا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ.“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدشگونی شرک ہے، اور ہم میں سے ہر ایک کو خدشات پیدا ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰٰ اسے توکل کے ذریعے سے ختم کر دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الطب، باب الطيرة: 2910 و الترمذي: 1614 و ابن ماجه: 3538»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 909
فوائد ومسائل: (۱)اہل جاہلیت یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اچھا یا برا شگون ان کے لیے نفع یا نقصان کا باعث ہے، حالانکہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ گویا اس کو انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے۔ (۲) اگر صرف دل میں وہم آئے اور انسان اس وہم کو خاطر میں نہ لائے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے ظاہر اسباب کو بروئے کار لا کر اپنا کام جاری رکھے تو اس وہم میں کوئی حرج نہیں۔ (۳) بادلوں کو دیکھ کر بارش کا شگون ہی لینا چاہیے، لیکن چونکہ وہ مظنہ عذاب ہیں اس لیے عذاب الٰہی سے پناہ طلب کرنا بھی ضروری ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 909