حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن صالح بن كيسان، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن زيد بن خالد الجهني، انه قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح بالحديبية على اثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف النبي صلى الله عليه وسلم اقبل على الناس فقال: ”هل تدرون ماذا قال ربكم؟“ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: ”اصبح من عبادي مؤمن بي وكافر، فاما من قال: مطرنا بفضل الله ورحمته، فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب، واما من قال: بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي، مؤمن بالكوكب.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى أَثَرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلَةِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: ”هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟“ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ”أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ، فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي، مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ.“
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی جبکہ اس رات بارش ہو چکی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے ہیں اور کچھ نے کفر کیا ہے، جس نے کہا: ہمیں اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش نصیب ہوئی ہے، وہ مجھ پر یقین رکھنے والا اور ستاروں کی تاثیر کا منکر ہے، اور جس نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی، اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأذان، باب يستقبل الامام الناس إذا سلم: 846 و مسلم: 71 و أبوداؤد: 3906 و النسائي: 1525»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 907
فوائد ومسائل: اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بارش برسنے میں ستارے کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے ذریعے سے بارش ہوتی ہے تو یہ شرک ہے کیونکہ بارش برسانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ تاہم اگر وہ ستاروں کے طلوع ہونے کو علامت خیال کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں یہ علامت بھی چونکہ حتمی نہیں اس لیے یہ انداز مناسب نہیں۔ اس سے بچ جانا ہی اصل ہے۔ محکمہ موسمیات والے ہوا کے دباؤ اور نمی وغیرہ سے اندازہ لگا کر پیش گوئی کرتے ہیں اور وہ بھی امکان کا ذکر کرتے ہیں، حتمی نہیں۔ یہ ایک الگ صورت ہے ستاروں پر ان کا اعتماد نہیں ہوتا۔ لیکن اس صورت میں بھی انداز تکلم جاہلیت والا نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں ستارے کے سبب بارش ہوئی، یعنی لفظی قباحت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 907