حدثنا احمد بن إسحاق، قال: حدثنا يحيى بن حماد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن عاصم بن كليب قال: حدثني سهيل بن ذراع قال: سمعت ابا يزيد او معن بن يزيد ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”اجتمعوا في مساجدكم، وكلما اجتمع قوم فليؤذنوني“، فاتانا اول من اتى، فجلس، فتكلم متكلم منا، ثم قال: إن الحمد لله الذي ليس للحمد دونه مقصد، ولا وراءه منفذ. فغضب فقام، فتلاومنا بيننا، فقلنا: اتانا اول من اتى، فذهب إلى مسجد آخر فجلس فيه، فاتيناه فكلمناه، فجاء معنا فقعد في مجلسه او قريبا من مجلسه، ثم قال: ”الحمد لله الذي ما شاء جعل بين يديه، وما شاء جعل خلفه، وإن من البيان سحرا“، ثم امرنا وعلمنا.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي سُهَيْلُ بْنُ ذِرَاعٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا يَزِيدَ أَوْ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”اجْتَمِعُوا فِي مَسَاجِدِكُمْ، وَكُلَّمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فَلْيُؤْذِنُونِي“، فَأَتَانَا أَوَّلَ مَنْ أَتَى، فَجَلَسَ، فَتَكَلَّمَ مُتَكَلِّمٌ مِنَّا، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ الَّذِي لَيْسَ لِلْحَمْدِ دُونَهُ مَقْصَدٌ، وَلاَ وَرَاءَهُ مَنْفَذٌ. فَغَضِبَ فَقَامَ، فَتَلاَوَمْنَا بَيْنَنَا، فَقُلْنَا: أَتَانَا أَوَّلَ مَنْ أَتَى، فَذَهَبَ إِلَى مَسْجِدٍ آخَرَ فَجَلَسَ فِيهِ، فَأَتَيْنَاهُ فَكَلَّمْنَاهُ، فَجَاءَ مَعَنَا فَقَعَدَ فِي مَجْلِسِهِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ قَالَ: ”الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي مَا شَاءَ جَعَلَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَمَا شَاءَ جَعَلَ خَلْفَهُ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا“، ثُمَّ أَمَرَنَا وَعَلَّمَنَا.
سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی مسجدوں میں اکٹھے ہو جاؤ۔ جب ایک قوم اکٹھی ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ہمارے ہاں تشریف لائے اور بیٹھ گئے، چنانچہ ہم میں سے ایک آدمی نے گفتگو کی، پھر کہا: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی حمد سے اس کی ذات کے سوا اور کوئی مقصد اور نہ اس کے سوا کوئی بھاگنے کی جگہ ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چلے گئے۔ ہم نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ہمارے ہاں ہی تشریف لائے تھے (پھر ہمارے خطیب کی بات سن کر اٹھ کر چلے گئے) چنانچہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے کی مسجد میں چلے گئے، اور وہاں بیٹھ گئے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ آئے اور اپنی پہلی نشست یا اس کے قریب بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ”ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے جو چاہا، جب چاہا بنایا اور جو چاہا بعد میں موجود فرمایا۔ بلاشبہ کئی بیان جادو ہوتے ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا اور تعلیم دی۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 15861 و رواه الطبراني أيضًا فى المعجم الكبير: 442/19، 1074»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 877
فوائد ومسائل: (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ گفتگو مختصر اور جامع کرنی چاہیے۔ بات سے بات نکالتے چلے جانا اور بلاوجہ تقریر کو طول دینا ناپسندیدہ امر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس خطیب نے بات کو طول دیا، حالانکہ وہ حمد پر مبنی کلمات تھے، آپ اٹھ کر چلے گئے۔ (۲) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اسے طویل بات نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ آپ کو موقع دینا چاہیے تھا، نیز اس سے معلوم ہوا کہ مسنون کلام کے مقابلے میں لمبی چوڑی مسجع و مقفع کلام کی کوئی حیثیت نہیں۔ (۳) مقرر کی سحر بیانی کی بجائے ان حقائق کی طرف توجہ دینی چاہیے جو وہ بیان کرتا ہے، تاہم عمدہ فصیح و بلیغ گفتگو کرنا جو لوگوں کی سمجھ میں آئے اور اس میں تصنع اور بناوٹ بھی نہ ہو، پسندیدہ امر ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 877