حدثنا قتيبة، قال: حدثنا جرير، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن يوسف بن ماهك، عن عبيد بن عمير، عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”إن اعظم الناس جرما إنسان شاعر يهجو القبيلة من اسرها، ورجل انتفى من ابيه.“حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ جُرْمًا إِنْسَانٌ شَاعِرٌ يَهْجُو الْقَبِيلَةَ مِنْ أَسْرِهَا، وَرَجُلٌ انْتَفَى مِنْ أَبِيهِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بڑا گنہگار اور مجرم وہ شاعر ہے جو پورے قبیلے کی مذمت کرتا ہے، اور دوسرا وہ ہے جو اپنے باپ سے اپنے نسب کی نفی کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الأدب: 3761 و أخرجه البيهقي: 241/10 من حديث شيبان به، و صححه ابن حبان: 2014»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 874
فوائد ومسائل: ایسے شعر ناپسندیدہ ہیں جن میں پورے قبیلے کی ہجو کی گئی ہو کیونکہ قبیلے کے تمام لوگ تو برے نہیں ہوتے۔ کسی برے فرد کی ہجو تو جائز ہے لیکن پورے قبیلے کی مذمت ہرگز درست نہیں۔ اسی طرح اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ عصر حاضر میں لے پالک کا جو رواج ہے، اسے شریعت نے ختم کر دیا ہے۔ اگر کوئی کسی بچے کی پرورش کرتا بھی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس کے حقیقی باپ کے نام سے پکارا جائے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 874