حدثنا خالد بن مخلد، قال: حدثنا سليمان بن بلال، قال: حدثنا يحيى بن سعيد قال: سمعت عبد الله بن عامر بن ربيعة يقول: قالت عائشة: ارق النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فقال: ”ليت رجلا صالحا من اصحابي يجيئني فيحرسني الليلة“، إذ سمعنا صوت السلاح، فقال: ”من هذا؟“ قال: سعد يا رسول الله، جئت احرسك، فنام النبي صلى الله عليه وسلم حتى سمعنا غطيطه.حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: أَرِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَقَالَ: ”لَيْتَ رَجُلاً صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَجِيئُنِي فَيَحْرُسَنِي اللَّيْلَةَ“، إِذْ سَمِعْنَا صَوْتَ السِّلاَحِ، فَقَالَ: ”مَنْ هَذَا؟“ قَالَ: سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللهِ، جِئْتُ أَحْرُسُكَ، فَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا غَطِيطَهُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی میرے پاس آ کر پہرہ دیتا۔“ تب اچانک ہم نے اسلحہ کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون ہے؟“ اس نے آواز دی: سعد۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کا پہرہ دینے کے لیے آیا ہوں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے سو گئے یہاں تک کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹوں کی آواز سنی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب التمني، باب قوله صلى الله عليه وسلم ليت كذا و كذا: 7231 و مسلم: 2410 و الترمذي: 3756»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 878
فوائد ومسائل: (۱)ایک روایت میں ہے کہ لَوْ کا کلمہ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے، یعنی کاش یہ ہوتا تو ایسے نہ ہوتا۔ امام بخاری یہاں بتانا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی تمنا مذموم نہیں بلکہ صرف وہ مذموم ہے جس میں تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہو۔ امور خیر کی تمنا کرنا جس کا تعلق مستقبل سے ہو یا ماضی میں کوئی گناہ کرنے پر اظہار ندامت ہو، جائز ہے۔ (۲) یہ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد کا واقعہ ہے جب یہودیوں سے یا مشرکین مکہ کے حملے کا خطرہ تھا۔ بعد ازاں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی کہ وہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا تب آپ نے پہرہ لگانا چھوڑ دیا۔ (۳) وسائل کا استعمال توکل کے منافي نہیں ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہرہ دینے کی خواہش اور اس پر عمل نہ کرتے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 878