حدثنا ابو عاصم، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي قلابة، ان ابا عبد الله قال لابي مسعود، او ابو مسعود قال لابي عبد الله: ما سمعت النبي صلى الله عليه وسلم في (زعم)؟ قال: ”بئس مطية الرجل.“حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللهِ قَالَ لأَبِي مَسْعُودٍ، أَوْ أَبُو مَسْعُودٍ قَالَ لأَبِي عَبْدِ اللهِ: مَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي (زَعَمَ)؟ قَالَ: ”بِئْسَ مَطِيَّةُ الرَّجُلِ.“
ابوقلابہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوعبداللہ نے سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہما سے کہا یا سیدنا ابومسعود نے سیدنا ابوعبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زعم (اس کا گمان ہے) کے بارے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آدمی کی بری سواری ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى (قول الرجل) زعموا: 4972 - انظر الصحيحة: 866»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 762
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی بات کا یقین نہ ہو اس بات کے کرنے سے گریز کیا جائے۔ جب بندے کو حقیقت حال کا علم ہی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ خاموش رہے۔ اس طرح کا انداز اختیار کرے کہ لوگ یہ کہتے ہیں، اس کا خیال ہے، کسی نے کہا ہے۔ اس طرح کی بے سروپا گفتگو سے گریز کرنا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 762