حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن سهيل بن ابي صالح، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا سمعت الرجل يقول: هلك الناس، فهو اهلكهم.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِذَا سَمِعْتَ الرَّجُلَ يَقُولُ: هَلَكَ النَّاسُ، فَهُوَ أَهْلَكُهُمْ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہو گئے، تو وہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة: 2623 و أبوداؤد: 4983 - انظر الصحيحة: 3074»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 759
فوائد ومسائل: (۱)اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص لوگوں پر طعن کرتا ہے اور ان کی برائیاں بیان کرتا اور کہتا ہے کہ زمانہ خراب ہوگیا ہے۔ یہاں بہتری نہیں آسکتی وغیرہ تو ایسا شخص خود سب سے بڑا گمراہ اور تباہی کی طرف جانے والا ہے کیونکہ ایک تو خود پسندی کا شکار ہے اور اپنے آپ کو پارسا سمجھتا ہے اور دوسروں کو حقیر اور گنہگار گردانتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا تزکیہ خود کرنے سے منع کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مایوسی پھیلا رہا ہے کہ اب کوئی اچھا بندہ نہیں رہا۔ اس کا نقد اصلاح کے لیے نہیں بلکہ مایوسی کے لیے ہے حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص خود سب سے بڑا بد عمل ہوتا ہے۔ (۲) یہ اس وقت منع ہے جب اپنی پارسائی اور لوگوں میں مایوسی پھیلانے کے لیے ہو۔ تاہم اگر کوئی لوگوں کی حالت زار دیکھ کر کڑھتا ہے اور دلی درد کا اظہار کرتا ہے اور خود با عمل ہے تو پھر ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 759