حدثنا مخلد بن مالك، قال: حدثنا حجاج بن محمد، قال: اخبرنا مبارك بن فضالة، عن بكر بن عبد الله المزني، عن عدي بن ارطاة قال: كان الرجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا زكي قال: اللهم لا تؤاخذني بما يقولون، واغفر لي ما لا يعلمون.حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ أَرْطَأَةَ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زُكِّيَ قَالَ: اللَّهُمَّ لاَ تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ، وَاغْفِرْ لِي مَا لا يَعْلَمُونَ.
عدی بن ارطاة رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ایک شخص ایسے تھے کہ جب ان کے سامنے ان کی پارسائی بیان کی جاتی تو وہ کہتے: اے اللہ! جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس کا مجھ سے مؤاخذہ نہ کرنا، اور میرے بارے میں جو یہ لوگ نہیں جانتے ان (گناہوں) کی مغفرت فرما۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد فى الزهد: 1142 و البخاري فى التاريخ الكبير: 58/2 و ابن أبى شيبة: 35703»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 761
فوائد ومسائل: (۱)جس طرح اپنا تزکیہ خود کرنا منع ہے اسی طرح کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنا بھی مذموم امر ہے کیونکہ اس سے خطرہ ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو پارسا سمجھنا شروع کر دے اور تباہ ہو جائے، البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقین ہو کہ یہ سامنے تعریف کرنے سے غرور میں مبتلا نہیں ہوگا تو اس کی منہ پر تعریف کرنا جائز ہے۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے مذکورہ دعا پڑھنی چاہیے جو اس بات کا اظہار ہے کہ یا اللہ یہ تیری دی ہوئی عزت اور پردے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اپنی شہرت کراؤں اس لیے میرا مؤاخذہ نہ فرمانا اور میرے جن گناہوں کا انہیں علم نہیں وہ معاف فرما دینا اور مجھے رسوا نہ کرنا۔ (۲) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کے اچھے کام پر اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ کی جائے۔ خوشامد اور حوصلہ افزائی میں فرق ظاہر ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 761