حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان قال: قال عمرو: عن ابن عباس: لا يقولن احدكم لشيء لا يعلمه: الله يعلمه ؛ والله يعلم غير ذلك، فيعلم الله ما لا يعلم، فذاك عند الله عظيم.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: قَالَ عَمْرٌو: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ لِشَيْءٍ لاَ يَعْلَمُهُ: اللَّهُ يَعْلَمُهُ ؛ وَاللَّهُ يَعْلَمُ غَيْرَ ذَلِكَ، فَيُعَلِّمَ اللَّهَ مَا لاَ يَعْلَمُ، فَذَاكَ عِنْدَ اللهِ عَظِيمٌ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسی چیز کے بارے میں جسے وہ نہیں جانتا یوں نہ کہے: اللہ اسے جانتا ہے۔ اللہ تو اس کے علاوہ بھی جانتا ہے، پھر وہ شخص اللہ کے علم میں وہ چیز شامل کرتا ہے جس کی حقیقت کا اسے علم نہیں۔ یہ بات اللہ کے ہاں بہت بڑا گناہ ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 764
فوائد ومسائل: مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو انسان کو کہنا چاہیے کہ مجھے اس کا علم نہیں۔ اگر علم ہو تو پھر اس میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ حقیقت حال سے آگاہ کر دینا چاہیے۔ اگر انسان کو کسی چیز کا علم نہ ہو اور انسان کہے کہ اللہ جانتا ہے کہ ایسے ہے اور وہ چیز اس طرح نہ ہو تو اس نے ایسی بات اللہ کی طرف منسوب کر دی جو اس نے نہیں کہی اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ صحابہ کرام کا یہ کہنا کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ عار محسوس کرتے ہوں کہ انہیں علم نہیں اور بعد والے اپنے بارے میں عدم علم کی نفي معیوب سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ سائل کو مغالطے میں ڈالنے کے لیے ایسا کہتے ہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 764