حدثنا خليفة، قال: حدثنا ابن مهدي، قال: حدثنا المثنى، هو ابن سعيد، عن قتادة، عن انس، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا هاجت ريح شديدة، قال: ”اللهم إني اسالك من خير ما ارسلت به، واعوذ بك من شر ما ارسلت به.“حَدَّثَنَا خَلِيفَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هَاجَتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تیز ہوا چلتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے: ”اے اللہ! میں تجھ سے اس خیر کا سوال کرتا ہوں جو یہ ہوا دے کر بھیجی گئی ہے، اور اس شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو یہ ہوا دے کر بھیجی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى المطر: 129 و الطبراني فى الدعاء: 969 و أبويعلی: 2898 - انظر الصحيحة: 2757»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 717
فوائد ومسائل: (۱)ہوا سے زندگی کی بقا ہے اور اس کے بے شمار فوائد ہیں، جیسے درختوں کی اصلاح، انسانی جسم کی صحت وغیرہ کا دارومدار اسی پر ہے۔ اور اس کا نقصان یہ ہے کہ جب یہ حد سے تجاوز کر جائے تو عذاب بن جاتی ہے۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اس لیے فرماتے کہ پہلی کئی قومیں اسی ہوا کے ذریعے تباہ کی گئیں جیسے قوم عاد وغیرہ۔ اس لیے آندھی چلنے کے وقت یہ دعا مسنون اور مستحب ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 717