حدثنا مسدد، عن يحيى، عن الاوزاعي، قال: حدثني الزهري، قال: حدثني ثابت الزرقي، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الريح من روح الله، تاتي بالرحمة والعذاب، فلا تسبوها، ولكن سلوا الله من خيرها، وتعوذوا بالله من شرها.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتٌ الزُّرَقِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”الرِّيحُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ، تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ وَالْعَذَابِ، فَلا تَسُبُّوهَا، وَلَكِنْ سَلُوا اللَّهَ مِنْ خَيْرِهَا، وَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہوا اللہ کی رحمت ہے۔ یہ رحمت اور عذاب کے ساتھ آتی ہے، لہٰذا اسے برا بھلا مت کہو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کے خیر کا سوال کرو، اور اللہ سے اس کے شر سے پناہ مانگو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب: 5097 و النسائي فى الكبرىٰ: 10702 و ابن ماجه: 3727»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 720
فوائد ومسائل: (۱)پہلی حدیث بظاہر موقوف ہے لیکن مرفوعاً بھی ثابت ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں تفصیل ذکر کی ہے۔ (الصحیحة للالباني، ح:۲۷۵۶) (۲) ریح کو ریح کہنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بندوں کو آرام پہنچاتی ہے لیکن بسا اوقات اپنی شدت اور گرمی کی وجہ سے اذیت اور عذاب بھی بن جاتی ہے اس لیے ناپسندیدہ صورت میں اسے برا بھلا کہنے کی بجائے اس کے شر سے پناہ طلب کرنی چاہیے۔ (۳) ہوا اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مامور ہے۔ جیسے اس کو حکم ہوتا ہے ایسے چلتی ہے، اس لیے اسے برا کہنا، مثلاً ”ہوا کا بیڑہ غرق ہو“ ہوا کا ستیا ناس ہو، وغیرہ اس ذات کو برا کہنا ہے جس نے اس کو حکم دیا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 720