حدثنا عباس النرسي، قال: حدثنا عبد الواحد، قال: حدثنا ليث، قال: اخبرني رجل من اهل البصرة، قال: سمعت معقل بن يسار، يقول: انطلقت مع ابي بكر الصديق رضي الله عنه، إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”يا ابا بكر، للشرك فيكم اخفى من دبيب النمل“، فقال ابو بكر: وهل الشرك إلا من جعل مع الله إلها آخر؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”والذي نفسي بيده، للشرك اخفى من دبيب النمل، الا ادلك على شيء إذا قلته ذهب عنك قليله وكثيره؟“ قال: ”قل: اللهم إني اعوذ بك ان اشرك بك وانا اعلم، واستغفرك لما لا اعلم.“حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ النَّرْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ، يَقُولُ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”يَا أَبَا بَكْرٍ، لَلشِّرْكُ فِيكُمْ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ“، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَهَلِ الشِّرْكُ إِلا مَنْ جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَلشِّرْكُ أَخْفَى مِنْ دَبِيبِ النَّمْلِ، أَلا أَدُلُّكَ عَلَى شَيْءٍ إِذَا قُلْتَهُ ذَهَبَ عَنْكَ قَلِيلُهُ وَكَثِيرُهُ؟“ قَالَ: ”قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لا أَعْلَمُ.“
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! يقيناً شرک تم لوگوں میں چیونٹی کی چال سے بھی پوشیدہ ہو کر آتا ہے۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے کے علاوہ بھی شرک ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ پوشیدہ طریقے سے داخل ہو جاتا ہے۔ کیا میں تیری راہنمائی ایسے کلمات کی طرف نہ کروں کہ جب تم وہ کہہ لو تو چھوٹا بڑا تمام شرک تجھ سے ختم ہو جائے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہو: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ میں جانتے بوجھتے تیرے ساتھ شرک کروں اور جو میں نہیں جانتا اس کے بارے میں استغفار کرتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبويعلي: 55 و أحمد: 19606 - بنحوه من حديث أبى موسيٰ، انظر الضعيفة، تحت حديث، رقم: 3755»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 716
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث میں شرک سے مراد ریاکاری، دکھلاوا اور عجب ہے کہ انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور اللہ کی خوشنودی کی بجائے لوگوں کی داد لینے کے لیے نیکی کرے۔ لیکن جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور اپنی ذات کو بھی پہچان لیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کا ہر کمال اور فضل وشرف اس کا اپنا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطاہ کردہ ہے۔ (۲) آج بہت سے لوگ حتی کہ علماء بھی ریاکاری کے اس شرک میں مبتلا ہیں کہ ہر نیکی مخلوق کو خوش کرنے اور ان پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کرتے ہیں۔ شہرت طلبی کی اس لذت میں اپنی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ عبادات میں مشغول اور معاصی سے دور ہیں حالانکہ یہ عبادت وریاضت وہ خالق کو راضی کرنے کے بجائے نفس کی لذت کے لیے کرتے ہیں۔ (۳) مذکورہ دعا شرک اصغر اور اکبر دونوں سے بچنے کے لیے ہے اس لیے اسے ضرور حرز جان بنانا چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 716