حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر برجل يعظ اخاه في الحياء، فقال: ”دعه، فإن الحياء من الإيمان.“ حدثنا عبد الله قال: حدثني عبد العزيز بن ابي سلمة، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابن عمر قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم على رجل يعاتب اخاه في الحياء، كانه يقول: اضر بك، فقال: ”دعه، فإن الحياء من الإيمان.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ: ”دَعْهُ، فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الإيمَانِ.“ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يُعَاتِبُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: أَضَرَّ بِكَ، فَقَالَ: ”دَعْهُ، فَإِنَّ الْحَيَاءَ مِنَ الإِيمَانِ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ و نصیحت کر رہا تھا کہ زیادہ حیا نہ کیا کر، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے حیا دار رہنے دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔“ ایک دوسری سند سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو (زیادہ) حیا کے بارے ڈانٹ ڈپٹ کر رہا تھا یہاں تک کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اس میں تم نقصان اٹھاؤ گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اسے اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان میں سے ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الإيمان، باب الحياء: 24 و مسلم: 36 و أبوداؤد: 4795 و الترمذي: 2615 و النسائي: 5033 و ابن ماجه: 58 - انظر المشكاة: 5070»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 602
فوائد ومسائل: کسی شخص میں اگر حیا زیادہ ہے اور اس وجہ سے اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے تو اسے حیا نہ کرنے کا مشورہ نہیں دینا چاہیے۔ اگر وہ حیا کو برقرار رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی تلافي کر دے گا۔ تاہم شرعی مسائل کے دریافت کرنے یا فرائض کی ادائیگی یا دین کے نقصان ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر حیا مانع نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایسا کرنے والا حیا دار نہیں عاجز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 602