حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا عبدة، قال: اخبرنا محمد بن عمرو، قال: حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم، يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم خليل الرحمن تبارك وتعالى“، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لو لبثت في السجن ما لبث يوسف، ثم جاءني الداعي لاجبت، إذ جاءه الرسول، فقال: ﴿ارجع إلى ربك فاساله ما بال النسوة اللاتي قطعن ايديهن﴾ [يوسف: 50]، ورحمة الله على لوط، إن كان لياوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: ﴿لو ان لي بكم قوة او آوي إلى ركن شديد﴾ [هود: 80]، فما بعث الله بعده من نبي إلا في ثروة من قومه“، قال محمد: الثروة: الكثرة والمنعة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ، يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلِ الرَّحْمَنِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى“، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ، ثُمَّ جَاءَنِي الدَّاعِي لأَجَبْتُ، إِذْ جَاءَهُ الرَّسُولُ، فَقَالَ: ﴿ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ﴾ [يوسف: 50]، وَرَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى لُوطٍ، إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ: ﴿لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ﴾ [هود: 80]، فَمَا بَعَثَ اللَّهُ بَعْدَهُ مِنْ نَبِيٍّ إِلا فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ“، قَالَ مُحَمَّدٌ: الثَّرْوَةُ: الْكَثْرَةُ وَالْمَنَعَةُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کریم بن کریم بن کریم بن کر یم تو یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔“ راوی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں قید میں اتنی مدت رہتا جتنی دیر یوسف علیہ السلام رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں اس کی بات مان لیتا، جب قاصد ان کے پاس آیا اور کہا: ” «ارجع الى ربك ......» اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا بنا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔“ اور اللہ تعالیٰ رحمت کرے لوط علیہ السلام پر جب وہ مضبوط جماعت کی پناہ لینے پر مجبور ہوئے جس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ”اگر مجھے مقابلے کی قوت ہوتی یا میں کسی مضبوط جماعت کی طرف پناہ لیتا۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کا کنبہ قبیلہ طاقتور نہ ہو۔“ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ثروة» کا مطلب جو تعداد اور طاقت و دفاع میں سب سے بڑھ کر ہو۔
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه الترمذي، تفسير القرآن، باب و من سورة يوسف: 3116 و النسائي فى الكبريٰ: 11190 و فقرة السجن و لوط رواها البخاري: 3372 و مسلم: 151 - انظر الصحيحة: 1617»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 605
فوائد ومسائل: (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوط علیہ السلام کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جس سے معلوم ہوا کہ دوسروں کے لیے دعا کرنا مسنون عمل ہے، خصوصاً انبیاء کا ذکر ہو تو ان کے لیے دعائیہ کلمات ادا کرنے مسنون ہیں۔ (۲) سیدنا لوط علیہ السلام کو جب ان کے مہمانوں کے بارے پریشان کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی خواہش کی کہ اگر میرا قبیلہ مضبوط ہوتا تو لوگ اس کی جرأت نہ کرتے جبکہ انہیں حسبی اللہ کہنا چاہیے تھا کیونکہ انبیاء کے شایان شان یہی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ممکن ہے کہ لوط علیہ السلام نے مہمانوں کی حالت سے خوف زدہ ہو کر یہ کہہ دیا ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے مہمانوں کے سامنے عذر پیش کرتے ہوئے یہ بات کہی ہو کہ کاش میرا کنبہ، قبیلہ مضبوط ہوتا، اور دلی طور پر اللہ کی طرف ہی توجہ کی ہو۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ حدیث میں رکن شدید سے مراد اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ مومن کا مضبوط قلعہ وہی ہے۔ (۳) آپ نے شروع میں سیدنا یوسف علیہ السلام کے صبر و تحمل اور اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ فرمایا کہ انہوں نے نہایت مشکل حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 605