حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا مخلد بن زيد، قال: اخبرنا ابن جريج قال: اخبرني ابو الزبير، انه سمع رجلا يسال جابرا عن خادم الرجل، إذا كفاه المشقة والحر، امر النبي صلى الله عليه وسلم ان يدعوه؟ قال: نعم، فإن كره احدكم ان يطعم معه فليطعمه اكلة في يده.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلاً يَسْأَلُ جَابِرًا عَنْ خَادِمِ الرَّجُلِ، إِذَا كَفَاهُ الْمَشَقَّةَ وَالْحَرَّ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْعُوهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَإِنْ كَرِهَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَطْعَمَ مَعَهُ فَلْيُطْعِمْهُ أُكْلَةً فِي يَدِهِ.
حضرت ابوالزبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جو خادم انسان کو مشقت اور گرمی سے بچائے (اور کھانا تیار کرے) تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ساتھ بٹھا کر کھلانے کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! لیکن اگر تم میں سے کوئی اسے ساتھ بٹھا کر کھلانا ناپسند کرے تو اس کے ہاتھ میں ہی ایک آدھ لقمہ تھما دے۔
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 198
فوائد ومسائل: یہ حدیث حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کی تفسیر ہے کہ غلام اور خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہیے۔ یعنی ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو اطلاق تھا اس کی وضاحت ہوگئی کہ خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا ضروری نہیں، بہتر ضرور ہے اگر کوئی شخص ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو اسے الگ سے دے دے تاکہ اس نے کھانا تیار کرکے مالک کو گرمی اور مشقت سے بچایا ہے تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کھانے میں سے کھائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خیرون القرون میں نوکر بھی ایمان دار تھے اور تیار کردہ کھانے میں خیانت نہیں کرتے تھے لیکن آج کل کے باورچی اور ملازمین تو پہلے اپنا کوٹہ پورا کرتے ہیں اور بعد ازاں مالکان کو دیتے ہیں۔ بہرحال ہر دو فریق کو اپنے اپنے فرائض کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 198