حدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا ابو يونس البصري، عن ابن ابي مليكة قال: قال ابو محذورة: كنت جالسا عند عمر رضي الله عنه، إذ جاء صفوان بن امية بجفنة يحملها نفر في عباءة، فوضعوها بين يدي عمر، فدعا عمر ناسا مساكين وارقاء من ارقاء الناس حوله، فاكلوا معه، ثم قال عند ذلك: فعل الله بقوم، او قال: لحا الله قوما يرغبون عن ارقائهم ان ياكلوا معهم، فقال صفوان: اما والله، ما نرغب عنهم، ولكنا نستاثر عليهم، لا نجد والله من الطعام الطيب ما ناكل ونطعمهم.حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو يُونُسَ الْبَصْرِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو مَحْذُورَةَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِذْ جَاءَ صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ بِجَفْنَةٍ يَحْمِلُهَا نَفَرٌ فِي عَبَاءَةٍ، فَوَضَعُوهَا بَيْنَ يَدَيْ عُمَرَ، فَدَعَا عُمَرُ نَاسًا مَسَاكِينَ وَأَرِقَّاءَ مِنْ أَرِقَّاءِ النَّاسِ حَوْلَهُ، فَأَكَلُوا مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: فَعَلَ اللَّهُ بِقَوْمٍ، أَوْ قَالَ: لَحَا اللَّهُ قَوْمًا يَرْغَبُونَ عَنْ أَرِقَّائِهِمْ أَنْ يَأْكُلُوا مَعَهُمْ، فَقَالَ صَفْوَانُ: أَمَا وَاللَّهِ، مَا نَرْغَبُ عَنْهُمْ، وَلَكِنَّا نَسْتَأْثِرُ عَلَيْهِمْ، لاَ نَجْدُ وَاللَّهِ مِنَ الطَّعَامِ الطِّيبِ مَا نَأْكُلُ وَنُطْعِمُهُمْ.
سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ صفوان بن امیہ ایک بہت بڑا ٹب لے کر آئے جسے چند لوگ ایک چادر میں اٹھائے ہوئے تھے، چنانچہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسکین لوگوں اور دیگر لوگوں کے جو غلام وہاں موجود تھے انہیں بلایا تو انہوں نے ساتھ کھایا۔ اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا برا کرے، یا فرمایا: ان پر لعنت کرے جو اپنے غلاموں کے ساتھ کھانے سے گریز کرتے ہیں۔ حضرت صفوان نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان سے بے توجہی نہیں کرتے لیکن ہم اپنی ذات کو ان پر ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم ہمارے پاس اتنا عمدہ اور اچھا کھانا نہیں ہوتا جو ہم خود بھی کھائیں اور انہیں بھی کھلائیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المروزي فى البر و الصلة: 353»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 201
فوائد ومسائل: گزشتہ ابواب میں مذکور روایات سے بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ غلام اور خادم کو ساتھ بٹھا کر کھلانا فرض اور واجب کا درجہ رکھتا ہے۔ اور اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فقہاء کے اسی اختلاف کی طرف اس باب کے عنوان میں اشارہ کیا ہے اور اپنا رجحان یہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کوئی رکاوٹ مانع ہو تو غلام کو ساتھ نہ بٹھانا بھی جائز ہے، مثلاً کھانا تھوڑا ہو یا خادم خود ادب و احترام کی وجہ سے مالک کے ساتھ نہ بیٹھے تو اس صورت میں کوئی گناہ نہیں، تاہم ایسی صورت میں اسے کچھ نہ کچھ کھانا دینا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص خادم کو از راہ تکبر ساتھ نہ بٹھائے تو وہ ضرور گناہ گار ہوگا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 201