حدثنا مسدد، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم بن بهدلة، عن ابي صالح، عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”خير الصدقة ما بقى غنى، واليد العليا خير من اليد السفلى، وابدا بمن تعول، تقول امراتك: انفق علي او طلقني، ويقول مملوكك: انفق علي او بعني، ويقول ولدك: إلى من تكلنا.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا بَقَّى غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، تَقُولُ امْرَأَتُكَ: أَنْفِقْ عَلَيَّ أَوْ طَلِّقْنِي، وَيَقُولُ مَمْلُوكُكَ: أَنْفِقْ عَلَيَّ أَوْ بِعْنِي، وَيَقُولُ وَلَدُكَ: إِلَى مَنْ تَكِلُنَا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی کو باقی رکھے، اور اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور ان سے خرچ کی ابتدا کرو جن کی کفالت تمہارے ذمے ہے۔ تمہاری بیوی کہے گی: مجھ پر خرچ کر یا مجھے طلاق دے، اور تیرا غلام کہے گا: مجھ پر خرچ کرو یا مجھے بیچ دو، اور تیرا لڑکا کہے گا: ہمیں کس کے سپرد کرتے ہو.“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب النفقات، باب وجوب النفقة على الأهل و العيال: 5355 و أبوداؤد: 1676 و النسائي: 2534 - الإرواء: 834»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 196
فوائد ومسائل: (۱)یہ حدیث وَاْبدَء بِمَنْ تَعُول تک صحیح بخاری میں اور بعد والا حصہ مدرج ہے جو حضرت ابوہریرہ کا قول ہے۔ (دیکھیے، الارواء، حدیث:۲۱۸۱) (۲)”غنی کو باقی رکھے“ کے دو مفہوم ہیں:صدقہ کرنے کے بعد انسان کے پاس ضروری خرچہ باقی رہے۔ وہ بالکل کنگال نہ ہو جائے کہ اپنا دے کر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھرے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس کو صدقہ دیا جائے اسے اتنا دیا جائے کہ اسے کسی اور سے مانگنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ پہلا مفہوم مزاج شریعت کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ید العلیا خیر کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دے کر بھی اس کا ہاتھ اوپر والا ہی رہے کہ وہ دینے والوں ہی میں شمار ہو، نیز اکثر وبیشتر کچھ اپنے پاس باقی ہو تو انسان صدقہ کیے گئے مال کے بارے میں سوچتا نہیں بلکہ اسے خوشی ہوتی ہے اور اس کے برعکس سارا دینے والا بسا اوقات نادم ہوتا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ (۳) مال خرچ اور صدقہ کرنے کا طریق کار اور ترتیب یہ ہے کہ پہلے ذاتی اخراجات پورے کیے جائیں اس کے بعد بیوی بچوں کے اخراجات پورے کیے جائیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے بچے محتاج ہوں اور انسان صدقہ و خیرات کرتا پھرے کیونکہ جن کی پرورش کی ذمہ داری انسان پر ہو وہ اس کے مال کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اہل و عیال پر خرچ کرنا جہاد في سبیل اللہ، غلام آزاد کرنے اور مسکین پر خرچ کرنے سے بھی افضل ہے۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:۹۹۵)اور اس کے بعد انسان کے غلام اور نوکر وغیرہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد انسان جہاں مناسب سمجھے خرچ کرسکتا ہے، تاہم عزیز و اقارب پر خرچ کرنے کا دوگنا ثواب ہے بشرطیکہ مقصود صلہ رحمی اور اللہ کی رضا ہو۔ دنیاوی چودھراہٹ کی طلب نہ ہو۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 196