تخریج: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب قوله تعالي: "فأن الله خمسه وللرسول" حديث:3118.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ناحق اللہ کا مال لینے والوں کے لیے جہنم کی وعید ہے۔
2. اللہ کے مال سے کیا مراد ہے؟اس میں بیت المال بھی شامل ہے اور صدقات وغیرہ بھی۔
3.بیت المال میں سے سرکاری آدمی کا اپنی جائز ضروریات کی حد تک مال لینا تو اس کا حق ہے‘البتہ اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر خرچ کرنا یا خود استحقاق سے زیادہ حاصل کرنا اور اس کا مالک بن بیٹھنا‘ جائز نہیں اور نہ غیر سرکاری آدمی کے لیے کسی طور پر یہ مال لینا درست ہے۔
حاکم چونکہ بیت المال کا محافظ و نگران ہوتا ہے‘ اس لیے اس کا اس میں سے استحقاق سے زائد مال لینا حرام اور جہنم کا موجب ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت خولہ رضی اللہ عنہا» یہ خولہ بنت ثامر ہیں جن کا تعلق انصار سے تھا‘ اس لیے انصاریہ کہلائیں۔
ابن عبدالبر کا قول ہے کہ یہ خاتون قیس بن فہد کی بیٹی تھیں۔
ان کا لقب ثامر تھا۔
مؤلف کا رجحان بھی اسی طرف ہے جیسے کہ انھوں نے اسدالغابہ میں ذکر کیا ہے۔
اس صورت میں بنو مالک بن نجار کی وجہ سے نجاریہ بھی ان کی نسبت ہو سکتی ہے۔
ان کی کنیت ام محمدتھی اور یہ سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔
جب غزوۂ احد میں انھیں شہید کر دیا گیا تو حضرت نعمان بن عجلان انصاری زرقی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کر لی تھی۔