Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1289
وعن خولة الأنصارية رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إن رجالا يتخوضون في مال الله بغير حق فلهم النار يوم القيامة» ‏‏‏‏ أخرجه البخاري.
سیدہ خولہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق دخل انداز ہوتے ہیں۔ قیامت کے روز ایسے لوگوں کیلئے جہنم کی آگ ہے۔ (بخاری)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب قوله تعالي: "فأن الله خمسه وللرسول" حديث:3118.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1289 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1289  
تخریج:
«أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب قوله تعالي: "فأن الله خمسه وللرسول" حديث:3118.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ناحق اللہ کا مال لینے والوں کے لیے جہنم کی وعید ہے۔
2. اللہ کے مال سے کیا مراد ہے؟اس میں بیت المال بھی شامل ہے اور صدقات وغیرہ بھی۔
3.بیت المال میں سے سرکاری آدمی کا اپنی جائز ضروریات کی حد تک مال لینا تو اس کا حق ہے‘البتہ اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر خرچ کرنا یا خود استحقاق سے زیادہ حاصل کرنا اور اس کا مالک بن بیٹھنا‘ جائز نہیں اور نہ غیر سرکاری آدمی کے لیے کسی طور پر یہ مال لینا درست ہے۔
حاکم چونکہ بیت المال کا محافظ و نگران ہوتا ہے‘ اس لیے اس کا اس میں سے استحقاق سے زائد مال لینا حرام اور جہنم کا موجب ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت خولہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ یہ خولہ بنت ثامر ہیں جن کا تعلق انصار سے تھا‘ اس لیے انصاریہ کہلائیں۔
ابن عبدالبر کا قول ہے کہ یہ خاتون قیس بن فہد کی بیٹی تھیں۔
ان کا لقب ثامر تھا۔
مؤلف کا رجحان بھی اسی طرف ہے جیسے کہ انھوں نے اسدالغابہ میں ذکر کیا ہے۔
اس صورت میں بنو مالک بن نجار کی وجہ سے نجاریہ بھی ان کی نسبت ہو سکتی ہے۔
ان کی کنیت ام محمدتھی اور یہ سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔
جب غزوۂ احد میں انھیں شہید کر دیا گیا تو حضرت نعمان بن عجلان انصاری زرقی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کر لی تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1289   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1289  
تخریج:
[بخاري 3118]،
[تحفة الاشراف 300/11]
مفردات:
«يَتَخَوَّضُوْنَ – خَاضَ يَخُوْضُ» کا اصل معنی پانی میں داخل ہونا ہے پھر یہ لفظ کسی بھی کام میں دخل دینے اور اس میں اپنی مرضی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

فوائد:
اللہ کے مال میں ناحق دخل اندازی کی صورتیں:
اللہ کے مال سے مراد مال غنیمت ہے بیت المال کے دوسرے اموال مثلاً زکوٰة، خراج وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان میں نہ امیر کو ناحق دخل اندازی جائز ہے نہ رعایا کو۔ امیر کی ناحق دخل اندازی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اللہ کا مال سمجھ کر اللہ ہی کی بتائی جگہوں پر عدل و انصاف کے ساتھ خرچ کرنے کی بجائے اپنا زاتی مال سمجھ کر اپنی مرضی اور خواہش نفس کے مطابق خرچ کرے یا اپنی جائیداد بنانی شروع کر دے مال غنیمت کے پانچ حصوں میں چار حصے مجاہدین میں تقسیم نہ کرے۔ خمس کو اللہ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی جگہوں پر خرچ نہ کرے، زکوة کو اس کی مدوں میں صرف نہ کرے، حقداروں میں تقسیم کرنے کی بجاۓ خویش پروری اور اقرباء نوازی کرے۔ ایسا کرنے والے کے لیے ان کی وعید ہے۔ رعایا کی ناحق دخل اندازی کی ایک صورت یہ ہے کہ مال غنیمت تقسیم ہونے سے پہلے اس میں سے کوئی چیز لے لے یا مسلمانوں کے مال سے کوئی چیز امیر کی اجازت کے بغیر لے لے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک غلام جس کا نام مدعم تھا بطور ہدیہ دیا۔ ایک دفعہ مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا کہ اچانک ایک نامعلوم تیر آیا جس نے اسے قتل کر دیا۔ لوگ کہنے لگے: اسے جنت مبارک ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمت کی اشیاء میں سے، تقسیم سے پہلے اٹھائی تھی آگ بن کر اس پر شعلے مار رہی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا تو ایک آدمی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں۔ [متفق عليه مشكٰوة باب قسمة الغنائم ]
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو مال دیا ہے وہ بھی درحقیقت اللہ کا مال ہے، انسان اس کا امین ہے اور صرف ان جگہوں سے لینے کا اور اپنی جگہوں پر خرچ کرنے کا پابند ہے جہاں اللہ کا حکم ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ» [9-التوبة:111]
اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔
اب اگر وہ مال کمانے یا اسے خرچ کرنے میں اللہ کی مرضی کی بجائے اپنی مرضی کرے گا تو اس کا انجام بھی آگ ہے۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 180   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3118  
3118. حضرت خولہ انصاریہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو لوگ اللہ کے مال میں بے جا تصرف کرتے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہوگی۔ (وہ قیامت کے دن دوزخ میں جائیں گے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3118]
حدیث حاشیہ:
اللہ کے مال سے یوں تو سارے ہی حلال مال مراد ہیں جن میں فضول خرچی کرنا گناہ عظیم قرار دیا گیا ہے۔
مگر یہاں اموال غنیمت پر بھی مصنف کا اشارہ ہے کہ اسے ناحق طور پر حاصل کرنا دخول نار کا موجب ہے۔
شریعت نے اس کی تقسیم جس طور پر کی ہے اسی طور پر اسے حاصل کرنا ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3118   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3118  
3118. حضرت خولہ انصاریہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو لوگ اللہ کے مال میں بے جا تصرف کرتے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہوگی۔ (وہ قیامت کے دن دوزخ میں جائیں گے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3118]
حدیث حاشیہ:

تمام حلال، اموال اللہ کے مال ہیں، ان میں فضول خرچی کرنا گناہ عظیم ہے لیکن یہاں مال غنیمت کے متعلق تنبیہ کی گئی ہے۔

امام بخاری ؒ نے اشارہ فرمایاہے کہ مال غنیمت ناحق طور پر حاصل کرنا دخول جہنم کاباعث ہے۔
شریعت نے اسے جس طرح تقسیم کیا ہے، ویسے ہی اسے حاصل کرنا چاہیے اور اس کی تقسیم رسول اللہ ﷺکو سونپی گئی ہے۔
اور آپ کے بعد یہ ذمہ داری حاکم وقت کی ہے۔

"خوض ناحق" سے مراد دوچیزیں ہیں:
ایک یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے عادلانہ طریقے کے خلاف تقسیم کامطالبہ کرنا اوردوسرا یہ کہ آپ کی تقسیم سے ہٹ کر غنیمت کا مال حاصل کرنا۔
بہرحال اس حدیث کےپیش نظر حاکم وقت کا یہ فرض ہے کہ وہ قومی خزانے کو فضول کاموں میں صرف نہ کرے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ عدل وانصاف کے مطابق صحیح مصرف میں خرچ کرے تاکہ قیامت کے دن ذلت اور رسوائی سے محفوظ رہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3118