وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره التقوى ها هنا» ويشير إلى صدره ثلاث مرات: «بحسب امرىء من الشر ان يحقر اخاه المسلم. كل المسلم على المسلم حرام: دمه وماله وعرضه» اخرجه مسلم.وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تحاسدوا ولا تناجشوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا يبع بعضكم على بيع بعض وكونوا عباد الله إخوانا المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره التقوى ها هنا» ويشير إلى صدره ثلاث مرات: «بحسب امرىء من الشر أن يحقر أخاه المسلم. كل المسلم على المسلم حرام: دمه وماله وعرضه» أخرجه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور قیمتیں نہ بڑھاؤ۔ ایک دوسرے سے بےرخی نہ اختیار کرو۔ ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے غیبت نہ کرو۔ ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر ہی سمجھتا ہے۔“ اپنے سینہ کی طرف تین مرتبہ اشارہ کر کے فرمایا کہ ” تقویٰ یہاں ہے۔ کسی آدمی کیلئے بس اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور آبرو حرام ہے۔“(مسلم)
हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से ही रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ एक दूसरे से हसद (जलन) न करो और दरें न बढ़ाओ। एक दूसरे से मुँह न फेरा करो। एक दूसरे की पीठ पीछे ग़ीबत (चुग़ली) न करो। एक दूसरे के सौदे पर सौदा न करो। अल्लाह के बंदों ! आपस में भाई भाई बन जाओ। मुसलमान, मुसलमान का भाई है। न उस पर अत्याचार करता है और न उसे बे सहारा छोड़ता है और न उसे छोटा और कम समझता है।” अपने सीने की तरफ़ तीन मर्तबा इशारा कर के कहा कि ’’ तक़वा यहाँ है। किसी आदमी के लिये बस इतना ही पाप काफ़ी है कि वह अपने मुसलमान भाई को छोटा और कम समझे। हर मुसलमान पर दूसरे मुसलमान का ख़ून, माल और इज़्ज़त हराम है।” (मुस्लिम)
Abu Hurairah [RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Avoid jealousy between yourselves, do not outbid one another (with a view to raising the price), do not harbor hatred against one another, do not bear enmity against one another, one of you should not enter into a transaction when the other has already entered into it; and be fellow brothers and slaves of Allah. A Muslim is a Muslim’s brother. He does not wrong, desert or despise him. Piety is found here (pointing three times to his chest), despising his Muslim brother is enough evil for any man to do. Every Muslim’s blood, property and honor are unlawful to be violated by another Muslim.” Related by Muslim.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1292
تخریج: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تحريم ظلم المسلم...، حديث:2564.»
تشریح: 1. اچھے مسلم معاشرے کے افراد میں کس طرح باہمی برتاؤ اور رہن سہن ہونا چاہیے‘ اس حدیث میں اس کی بابت جامع بیان ہے۔ 2. اس میں حسد جیسی مہلک بیماری سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 3.معاشی اعتبار سے ایک سودے کی قیمت صرف مالک کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے بڑھانا بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں ہے کیونکہ خریدار بھی تو اس کا مسلمان بھائی ہے‘ اسے نقصان پہنچانا کہاں کی شرافت ہے؟ 4. بغض نہ رکھا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں بڑا فرق واقع ہوتا ہے۔ 5. ایک دوسرے پر زیادتی‘ سرکشی اور ظلم نہ کرو بلکہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ ایک دوسرے کے خیر خواہ بنو‘ کوئی کسی کو ضرر و نقصان نہ پہنچائے اور نہ ایک دوسرے کے عیب تلاش کرے‘ نہ کسی کو حقیر جانے اور نہ خود ہی کو بڑا سمجھے کیونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے بھائی کو حقیر سمجھنا تکبر ہے جو انتہائی خطرناک بیماری ہے۔ 6. ہر مسلمان پر خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ امیر ہو یا غریب‘ دوسرے مسلمان کا خون‘ مال اور عزت حرام ہے۔ کوئی کسی کی جان ‘مال اور عزت سے مت کھیلے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1292
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1292
تخریج: [مسلم، البر والصلة/32]، [تحفة الاشراف 456/10] مفردات: «بِحسْبِ امْرِءٍ» میں باء زائدہ ہے اور «حسب امري» مبتداء ہے اور «ان يحقر اخاه المسلم» جملہ بن کر مصدر کی تاویل میں ہو کر اس کی خبر ہے۔
فوائد: ➊ «لَا تَحَاسَدُوْا» یہ باب تفاعل ہے جو دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر حسد مت کرو۔ کوئی حسد کرے تو اس کے جواب میں بھی اس پر حسد نہ کرو۔ حالانکہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی اجازت ہے: «وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا»[42-الشورى:40] ”برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہے۔“ مگر مسلمان پر حسد کے جواب میں بھی حسد جائز نہیں تو جو تم پر حسد نہیں کرتا اس پر حسد تو بطریق اولیٰ حرام ہے۔ حسد کی تفصیل اور علاج کے لئے دیکھئے اس باب کی پہلی حدیث، ➋ «وَلَا تَنَاجَثُوْا» یہ بھی باب تفاعل ہے۔ لغت میں «نجش» کا معنی شکار کو اس کی جگہ سے اٹھانا اور نکالنا ہے تاکہ پھر اسے شکار کیا جا سکے یہاں مراد یہ ہے کہ جب کوئی سامان فروخت ہو رہا ہو بولی: میں اس کی قیمت لگائی جا رہی ہو تو کوئی شخص دوسرے سے بڑھ کر اس کی قیمت لگا دے جب کہ اس کا ارادہ اسے خریدنے کا نہ ہو تاکہ دھوکے میں اگر کوئی دوسرا شخص اس سے بڑھ کر قیمت لگا کر پھنس جائے یہ دھوکا ایک دوسرے کے مقابلے میں کرنا بھی حرام ہے۔ تو اس شخص کے ساتھ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہے جو آپ سے یہ معاملہ نہیں کرتا۔ ➌ «وَلَا تَبَاغَضُوْا» یہ بھی «تحاسدوا» کی طرح باب تفاعل ہے۔ اور اس میں بھی وہی نکتہ موجود ہے کہ جو مسلمان تم سے بغض رکھے تم مقابلے میں بھی اس سے بغض مت رکھو اور اگر کوئی تم سے بغض نہیں رکھتا اس سے بغض رکھنا تو اور زیادہ برا ہے۔ اس حکم کی رو سے وہ کام بھی حرام ٹھہرے جن سے آپس میں دلی عداوت پیدا ہوتی ہے۔ ➍ «وَلاَ تَدَابَرُوْا» یہ «دُبُر» یعنی پیٹھ سے باب تفاعل ہے۔ ایک دوسرے کی طرف پیٹھ مت کرو، مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو ایک دوسرے سے بول چال بند نہ کرو کیونکہ جب دو آدمی ایک دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر لیتے ہیں یہ حالت تین دن سے زیادہ رکھنا حرام ہے۔ ➎ ایک دوسرے کی بیع پر بیع مت کرو: جب دو مسلمانوں کی آپس میں بیع ہو چکے تو کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیچنے والے سے کہے کہ تم یہ چیز میرے ہاتھ میں فروخت کرو میں تمہیں زیادہ قیمت دیتا ہوں نہ خریدنے والے سے یہ کہنا جائز ہے کہ تم یہ چیز مجھ سے خریدو میں تمہیں سستی دیتا ہوں پہلی فسخ کر دو اس سے آپس میں شدید عداوت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر دو فریقوں میں نکاح کی بات طے ہو چکی ہے صرف عقد باقی ہے تو کسی تیسرے کو ان کی بات ختم کروا کر اپنا پیغام بھیجنا جائز نہیں۔ ہاں اگر بیع طے نہیں ہوئی اور اسی طرح ابھی رشتہ طے نہیں ہوا تو ہر شخص خریدنے کے لئے کہہ سکتا ہے کہ میں اتنی قیمت پر خریدتا ہوں اسی طرح ہر شخص نکاح کا پیغام بھی دے سکتا ہے۔ ➏ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ: یعنی اللہ کے بندے ہو تو اس کا حکم مانو۔ بندے کا کیا کام ہے کہ اپنی بات چلائے۔ پانچ چیزوں سے منع کرنے کے بعد علم یہ دیا کہ نسبی بھائیوں کی طرح آپس میں بھائی بن جاؤ۔ تمہارے درمیان سگے بھائیوں کی طرح باہمی شفقت، رحمت، محبت، غمخواری، معاونت اور خیر خواہی ہونا چاہیے۔ ➐ وہ چیزیں جن سے اسلامی اخوت کا اظہار ہوتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ پھر اس اخوت کو ظاہر کرنے والی تین چیزیں بیان فرمائیں۔ ① وہ اس پر ظلم نہیں کرتا۔ نہ اس کی جان پر، نہ مال پر، نہ عزت پر۔ ② وہ اس کی مدد نہیں چھوڑتا اگر وہ مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچاتا ہے اگر وہ ظالم ہے تو اس کی مدد اس طرح کرتا ہے کہ اسے ظلم سے روکتا ہے۔ ③ اسے حقیر نہیں جانتا۔ کیونکہ مسلمان کو حقیر جانے کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے اور تکبر ایمان کے منافی ہے۔ صحیح مسلم میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الكبر بطر الحق وغمط الناس»[صحيح مسلم ح: 91، الإيمان 39 ] ”تکبر حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ متکبر آدمی دوسرے کو حقیر جاننے کی وجہ سے انہیں اس لائق ہی نہیں سمجھتا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا اس پر فرض ہے۔ ➑ تقوی کیا ہے اور کہاں ہوتا ہے؟: تقویٰ کا لفظی معنی ڈرنا اور بچنا ہے۔ اللہ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کے ثواب کی امید کے ساتھ اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے اس کی تمام منع کردہ چیزوں سے اجتناب کیا جائے۔ تقویٰ دل میں ہوتا ہے اور اس کا اثر تمام اعضاء پر ظاہر ہوتا ہے۔ ➒ مسلمان کو حقیر جانے کا گناه: فرمایا: ”آدمی کو برا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر جانے کیونکہ اسے حقیر جاننے کی وجہ تکبر ہے اور تکبر اللہ تعالیٰ سے مقابلہ ہے یہ صرف اللہ کو زیب دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: «الكبرياء ردآئي اذاري، فمن نازعني واحدا منهما، قذفته فى النار»[صحيح ابي داؤد، ح: 3446، اللباس 28 ] ”کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے، جس شخص نے ان دونوں میں سے کسی ایک پر مجھ سے مقابلہ کیا میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔“ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يدخل الجنة من كان فى قلبه مثقال ذرة من كبر»[مسلم ] ”وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی تکبر ہو گا۔“ ➓ «كُلُّ مُسْلِمٍ» اور «كُلُّ الْمُسْلِم» میں فرق: «كُلُّ مُسْلِمٍ» کا معنی ہے ہر ایک مسلمان اور «كُلُّ الْمُسْلِم» کا معنی ہے مسلمان کا کل، مسلمان کا ہر ہر حصہ، مسلمان کی ہر چیز، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی وضاحت فرما دی کہ مسلمان کی ہر ایک چیز اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 188