وعن ابي ذر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم فيما يرويه عن ربه قال: «يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا» . اخرجه مسلم.وعن أبي ذر رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم فيما يرويه عن ربه قال: «يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا» . أخرجه مسلم.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، ان خبروں کے متعلق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان بھی حرام کر دیا ہے۔ لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ “(مسلم)
हज़रत अबु ज़र रज़ि अल्लाहु अन्ह ने नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम से रिवायत किया, उन ख़बरों के बारे में जो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम अल्लाह तआला की बयान करते हैं कि अल्लाह तआला ने कहा ’’ ऐ मेरे बंदों ! मैं ने ज़ुल्म को अपने उपर हराम कर लिया है और तुम्हारे बीच में भी हराम कर दिया है। इसलिए तुम एक दूसरे पर ज़ुल्म न करो। ‘‘ (मुस्लिम)
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تحريم الظلم، حديث:2577.»
Abu Dharr (RAA) quoted the Prophet (ﷺ) saying among what he narrated from Allah, the Most High that He has said, “O MY slaves, I have made oppression unlawful for myself and I have made it unlawful among you, so do not oppress one another.” Related by Muslim.
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1290
تخریج: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تحريم الظلم، حديث:2577.»
تشریح: 1.یہ حدیث قدسی ہے۔ حدیث قدسی وہ ہوتی ہے جس کا معنی و مفہوم اللہ رب العزت کی طرف سے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہو لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت موجود ہو۔ 2.اس حدیث کی رو سے ظالم کے لیے کسی قسم کی رو رعایت نہیں۔ اور اسلوب بیان یہ ہے کہ جب میں ظلم نہیں کرتا تو تم بھی باہم ایک دوسرے پر ظلم سے باز آجاؤ۔ ظلم عقلاً و نقلاً برا عمل ہے جس کے بارے میں فیصلہ یہ ہے: ﴿ وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ﴾(طٰہٰ۲۰:۱۱۱)”اور یقینا ظلم کرنے والا خائب و خاسر ہوگیا۔ “ اس لیے ظالم کی دنیا ہے نہ آخرت، وہ خسارے ہی خسارے میں رہے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1290
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1290
تخریج: [مسلم البر والصلة / 55] [تحفة الاشراف 169/9] فوائد: ➊ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا: اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ پر حرام کر لیا ہے کہ کسی پر ظلم کروں۔ قرآن مجید میں فرمایا: «وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا»[18-الكهف:49 ] ”اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“ اور فرمایا: «وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ»[50-ق:29] ”اور میں بندوں پر بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں ہوں۔“ ➋ کیا اللہ تعالیٰ (نعوذ بالله) تھوڑا ظلم کر لیتا ہے؟: بعض اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بندوں پر ظلام یعنی ”بہت زیادہ ظلم کرنے والا نہیں ہوں“ تو اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ تھوڑا بہت ظلم وہ کر سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَمَا اللَّـهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ»[3-آل عمران:108] ”اللہ تعالیٰ جہان والوں پر ظلم کا ارادہ بھی نہیں کرتا۔“ ظلام کی نفی میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ معمولی سے ظلم کا ارادہ بھی نہیں کرتا تو وہ ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ چہ جائیکہ وہ ظلام ہو؟ ظلم کی تعریف اور مزید تشریح کے لئے دیکھئے: بلوغ المرام کی حدیث (1397/3)
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 181