تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب، حديث:6116.»
تشریح:
اس حدیث میں غصے سے بچنے کی تاکید ہے۔
بہت سے ظالمانہ کام انسان غصے میں کر گزرتا ہے اور بعد میں اکثر نادم و پریشان ہوتا ہے۔
علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں جمع کر دی گئی ہیں کیونکہ غصے کی حالت میں انسان نرمی اور رحم دلی کی صفات سے خالی ہو جاتا ہے‘ قطع رحمی کا سبب بنتا ہے اور دوسرے مسلمان کو ایذا اور تکلیف پہنچانے کے در پے ہو جاتا ہے۔
اور یہ امور انسان کی دنیا و آخرت میں بربادی کا باعث بنتے ہیں۔
اور اگروہ ان سے اجتناب کرے تو یہی امور دنیا و آخرت میں فلاح و فوز کا سبب بنتے ہیں۔
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ غصے سے بچنے سے مراد ان اسباب سے اجتناب کرنا ہے جو غصے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ غصہ تو ایک طبعی اور فطری معاملہ ہے اور انھی اسباب میں سے ایک سبب تکبر بھی ہے۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے مزاج کے پیش نظر فرمایا کہ غصہ نہ کیا کر کیونکہ وہ بات بات پر غضب ناک ہو جاتا تھا۔
مسند احمد میں ہے کہ وہ سوال کرنے والے جاریہ بن قدامہ تھے۔
(مسند أحمد: ۳ /۴۸۴) اور ایک حدیث میں ہے کہ وہ سائل سفیان بن عبداللہ ثقفی تھے۔
اس کی بابت مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۵ /۳۳۰.۳۳۳)