- (اشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، لا ياتي بهما عبد محق إلا وقاه الله حر النار).- (أشهد أن لا إله إلا الله، وأنِّي رسول الله، لا يأتي بهما عبدٌ مُحِقٌ إلاّ وقاه الله حرّ النّار).
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔“ کوئی ایک مد لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع (تقریباً پچاس کلو گرام) جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت“، لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لیے، حتی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، وہ سب فارغ ہو گئے اور اناج ویسے کا ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائے گا۔“
हज़रत उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह कहते हैं कि हम एक लड़ाई में नबी सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथ थे। हम ने कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल, दुश्मन खा पीकर कर पहुंच चूका है और हम भूके हैं ? अन्सार ने कहा कि क्या हम ऊंट ज़िबह करके लोगों को खिला न दें ? नबी सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जिस के पास बहुत खाना है, वे ले आए।” कोई एक मद लेकर आया तो कोई एक साअ और कोई बहुत लेकर आया तो कोई कम। पूरी फ़ौज में से चौबीस साअ (लगभग पचास किलो ग्राम) जमा हुए। नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम उस ढेर के पास बैठ गए, बरकत की दुआ की, फिर फ़रमाया ! “लेना शुरू करदो और लूटो मत” लोगों ने अपने अपने थैले, बोरियां और बर्तन भर लिए, यहां तक कि कुछ लोगों ने अपनी आस्तीनें बाँध कर उनको भी भर लिया, वे सब लेचुके और अनाज वैसे का वैसा ही पड़ा रहा। फिर नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “मैं यह गवाही देता हूँ कि बेशक अल्लाह ही ईश्वर है और मैं अल्लाह का रसूल हूँ। जो बंदा सच के साथ ये दो (गवाहियाँ) लेकर आएगा, अल्लाह तआला उसे जहन्नम की आग से बचाएगा।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3221
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلي في ”مسنده“: 199/1 - 230/200 - والسياق لـس، والبزار: 11/13/1»
قال الشيخ الألباني: - (أشهد أن لا إله إلا الله، وأنِّي رسول الله، لا يأتي بهما عبدٌ مُحِقٌ إلاّ وقاه الله حرّ النّار) . _____________________ أخرجه أبو يعلى في "مسنده " (1/199- 200/ 230) - والسياق له-، والبزار (1/13/ 11) -مختصراً-من طريق يزيد بن أبي زياد عن عاصم بن عبيد الله بن عاصم عن جده عمر قال: كنا مع النبي - صلى الله عليه وسلم - في غزاة، فقلنا: يا رسول الله! إن العدو قد حضر وهم شِباع، والناس جياع؟! فقالت الأنصار: ألا ننحر نواضحنا فنطعمها الناس؟! فقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "من كان معه فضل طعام؛ فليجيء به ". فجعل يجيء بالُمُدِّ والصاع، وأكثر وأقل، فكان جميع ما في الجيش بضعاً وعشرين صاعاً، فجلس النبي - صلى الله عليه وسلم - إلى جنبه، ودعا بالبركة، فقال النبي - صلى الله عليه وسلم -: "خذوا، ولا تنتهبوا ". فجعل الرجل يأخذ في جرابه وفي غرارته، وأخذوا في أوعيتهم؛ حتى إن الرجل ليربط كم قميصه فيملأه، ففرغوا والطعام كما هو! ثم قال النبي - صلى الله عليه وسلم -: ... فذكره. قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ لحال عاصم ويزيد المعروفة في سوء الحفظ، ولكن ذلك لا يمنع من الاستشهاد بهما، وتقوية حديثهما بالشواهد، ولهذا خرجته هنا؛ فإن لهذه القصة والحديث شواهد بنحوه كثيرة، بعضها في "الصحيح ": منها حديث أبي هريرة- أو أبي سعيد؛ شك الأعمش- قال: لما كان غزوة تبوك أصابت الناس مجاعة؛ قالوا: يا رسول الله! لو أذنت لنا فنحرنا نواضحنا، فأكلنا وادهنا ... الحديث بنحوه، وقال في آخره: ".. لا يلقى الله بهما عبدٌ غير شاكٍّ، فيحجب عن الجنة". __________جزء : 7 /صفحہ : 672__________ أخرجه مسلم (1/42) ، وأبو عوانة (1/7) ، وأبو يعلى في "مسنده " (2/ 411 - 412/1199) ، ومن طريقه: ابن حبان (8/162/6496) ، والبيهقي في "دلائل النبوة" (5/229- 230) ، وأحمد (3/ 11) من طرق عن أبي معاوية عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة أو عن أبي سعيد ... وتابعه طلحة بن مُصرِّف عن أبي صالح عن أبي هريرة قال: ... فذكره، ولم يشك. أخرجه مسلم، وأبو عوانة، والنسائي في "السنن الكبرى" (5/245/ 8794) ، والبيهقي أيضاً (5/228- 229 و 6/ 120- 121) . وهذا هو المحفوظ عن الأعمش بسنده المتقدم عن أبي هريرة دون شك؛ فإنه هكذا أخرجه أبو عوانة، والنسائي (8796 و 8797) من طرق أخرى عن الأعمش: أخرجاه من طريق قتادة بن الفُضيل بن عبد الله بن قتادة، ومن طريق عبد العزيز بن أبي حازم عن سهيل؛ كلاهما عن الأعمش به. وأخرجه أحمد (2/421- 422) من طريق فُليح عن سهيل بن أبي صالح عن أبي هريرة به. هكذا الإسناد فيه، لم يذكر الواسطة بين سهيل وأبي هريرة، فهو منقطع ظاهر الانقطاع، فلا أدري أهو سقط من الناسخ، أم من أوهام فليح؟! على أن الراوي عنه (فزارة بن عمرو) ، لم يذكروا له راوياً غير أحمد، وقد روى له حديثاً آخر عن أنس، وقال الحسيني: "فيه نظر". __________جزء : 7 /صفحہ : 673__________ كما في "التعجيل "، ولم يذكر له غير حديث أنس، فيستدرك عليه هذا الحديث. وقتادة بن الفضيل؛ وقع عند "أبي عوانة": (الفضل) مكبراً؛ وهو مما قيل فيه؛ كما قال ابن حبان في "الثقات " (7/341 و 9/42) ، فليس خطأ مطبعياً كما قد يُظن، وهو ثقة عندي؛ كما في "تيسير الانتفاع ". ومن تلك الشواهد: حديث أبي عمرة الأنصاري، قال: كنا مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في غزوة ... الحديث نحوه بلفظ: ".. لا يلقى الله عبدٌ يؤمن بهما إلا حُجبت عنه النار يوم القيامة". أخرجه النسائي (8793) ، و"عمل اليوم والليلة" (1140) ، وأحمد (3/417 - 418) كلاهما من طريق عبد الله بن المبارك-وهذا في"الزهد" (321/917) -، عن الأوزاعي قال: حدثني المطلب بن حنطب المخزومي قال: حدثني عبد الرحمن ابن أبي عمرة قال: حدثنا أبي قال: ... فذكره. وتابعه جمع عن الأوزاعي به. أخرجه ابن حبان (رقم 8- موارد) ، والحاكم (2/618) ، والبيهقي (6/ 121) ، وقال الحاكم: "صحيح الإسناد". ووافقه الذهبي. وهو كما قالا؛ فقد صرح ابن أبي عمرة بالتحديث عنده كما هو في رواية ابن المبارك. تم بحمد الله القسم الأول ويليه القسم الثاني إن شاء الله. * __________جزء : 7 /صفحہ : 674__________ ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 10 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 10
فوائد: «لا إِلَهَ إِلَّا الله» کلمہ توحید ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالی معبود برحق ہے، وہ اس لائق ہے کہ محض اس کی پرستش کی جائے، ماسوائے اللہ کے تمام قسم کے معبود، معبودان باطلہ ہیں، ایمان کے بیشمار شعبوں میں «لا اله إِلَّا الله» کو سب سے زیادہ بلند مقام حاصل ہے، کیونکہ یہی ذکر ہے جس کا اقرار کرنے سے دائرہ اسلام میں داخلہ نصیب ہوتا ہے اور جس کے انکار سے ارتداد و کفر کی صف میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
اللہ تعالی پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات کو من و عن تسلیم کیا جائے اور صفات کے تقاضوں پر یقین کامل رکھا جائے، بطور مثال رزق دینا اللہ تعالی کی صفت ہے اور رزق کے لئے جائز اسباب و ذرائع استعمال کرنے کا حکم بھی اللہ تعالی نے ہی دیا ہے، اب جو انسان حرام و سائل کے ذریعے رزق اکٹھا کرتا ہے یا حلال اسباب استعمال کرنے کے بعد کمی کے ڈر سے صدقہ نہیں کرتا یا نماز کے وقت دوکان بند کر کے نماز نہیں پڑھتا، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اللہ تعالی کے رزاق ہونے کا تقاضا پورا نہیں کر رہا، اور اسے اللہ تعالیٰ کی صفت ”رزق دینا“ پر مکمل اعتماد نہیں ہے، ایمان و ایقان صرف خیالی پلاؤ کا نام نہیں بلکہ اس کا اعمال کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
تمام آیات و احادیث کی روشنی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی شہادت دینے کا مفہوم یہ ہو گا کہ آپ صلى الله عليه وسلم خاتم النبیین اور خاتم الرسل ہیں، صاحب قرآن ہیں، دینی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں، اختلافی معاملات اور متنازعہ امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حتمی حاکم اور ثالث سمجھا جائے اور آپ سے پہلے نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہونے والے انبیاء و رسل کو برحق سمجھا جائے اور یہ کہ ان تمام کی شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔
حدیث مبارکہ کے پہلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی علامت اور دلیل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس معجزہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کی شہادت کی فضیلت بیان کی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَكْثرُوا مِنْ شَهَادَةِ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قبل أن يُحَالَ بَيْنَكُم وبينها وَلَقَنُوهَا مَوْتَاكُمْ»[صحيحه: 467] ”اللہ تعالیٰ کے معبودِ برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو قبل اس کے کہ تمھارے اور اس کے مابین کوئی رکاٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
اس حدیث مبارکہ میں «أَشْهَدُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله» کا زندگی میں کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ مسلمان اس ذکر کے عظیم ثواب سے محروم نہ رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ معلوم نہیں کہ آیا موت کے وقت اللہ تعالی کی وحدانیت کی شہادت کا موقع ملے گا یا نہیں، اس لیے موت سے پہلے ہی آخرت کی مکمل تیاری کر لینی چاہیے۔ قارئین کرام! آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد حادثات اور بعض بیماریوں کی وجہ سے اچانک لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور بعض افراد ہمارے سامنے مر رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ اس کلمے کا درد نہیں کر سکتے۔ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایسے مراحل عبور کرنے سے پہلے ہی توشہ آخرت تیار کر لینا چاہیے، حدیث کے دوسرے حصے میں قریب المرگ آدمی کو کلمۂ تو حید کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات سے اللہ تعالی پر اور آپ پر اعتقاد میں رسوخ پیدا ہوتا ہے۔
مد اور صاع پیمانے ہیں، صاع کا وزن تقریبا دو کلو سو گرام ہوتا ہے اور مد، صاع کا چوتھا حصہ ہوتا ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 10