-" تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل".-" تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کرو اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر مت کرو۔“
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अल्लाह तआला की नेअमतों पर ग़ौर करो और अल्लाह तआला की ज़ात पर ग़ौर मत करो।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1788
تخریج الحدیث: «رواه الطبراني فى ”الأوسط“: 6456، والسلالكائي فى ”السنة“: 1/ 1/119 - 2، والبيهقي فى ”الشعب“: 75/1 - هند»
قال الشيخ الألباني: - " تفكروا في آلاء الله، ولا تفكروا في الله عز وجل ". _____________________ رواه الطبراني في " الأوسط " (6456) واللالكائي في " السنة " (1 / 119 / 1 - 2) والبيهقي في " الشعب " (1 / 75 - هند) عن علي بن ثابت عن الوازع بن نافع عن سالم بن عبد الله عن أبيه مرفوعا. قلت: وهذا إسناد ضعيف جدا آفته الوازع هذا، فقد قال البخاري: " منكر الحديث ". وقال النسائي وغيره: متروك. بل قال الحاكم وغيره: " روى أحاديث موضوعة ". ولهذا قال البيهقي عقبه: " هذا إسناد فيه نظر ". ومن طريقه أخرجه أبو الشيخ والطبراني في " الأوسط " وابن عدي كما في " الجامع الصغير " وشرح المناوي عليه. وبه أعله في " المجمع " (1 / 81) . وله شاهد من حديث أبي هريرة مرفوعا به، وزاد: " فإنكم لن تدركوه إلا بالتصديق ". أخرجه ابن عساكر في المجلس (139) من " الأمالي " (50 / 1) من طريق __________جزء : 4 /صفحہ : 395__________ محمد بن سلمة البلخي حدثنا بشر بن الوليد حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة عن الزهري عن أبي سلمة عنه. وبشر بن الوليد ضعيف. والبلخي لم أعرفه. شاهد ثان من حديث أبي هريرة مرفوعا. أخرجه ابن النجار في " ذيل تاريخ بغداد " (10 / 192 / 1) بإسناد ضعيف جدا فيه جماعة لم أعرفهم، وأبو عبد الرحمن السلمي الصوفي متهم بالوضع. شاهد ثالث من حديث عبد الله بن سلام مرفوعا بلفظ: " لا تفكروا في الله، وتفكروا في خلق الله، فإن ربنا خلق ملكا، قدماه في الأرض السابعة السفلى، ورأسه قد جاوز السماء العليا، وما بين قدميه إلى ركبته مسيرة ستمائة عام، وما بين كعبيه إلى أخمص قدميه مسيرة ستمائة عام، والخالق أعظم من المخلوق ". أخرجه أبو نعيم في " الحلية " (6 / 66 - 67) من طريق عبد الجليل ابن عطية عن شهر عنه. قلت: وهذا إسناد حسن في الشواهد، وعبد الجليل وشهر وهو ابن حوشب صدوقان سيئا الحفظ. وسائر الرجال ثقات. وفي الباب عن أبي ذر وابن عباس، عند أبي الشيخ، والثاني عند أبي نعيم في " الحلية " كما في " الجامع "، ولم أره في " فهرس الحلية ". ورواه البيهقي في " الأسماء والصفات " (ص 420) من طريق عاصم بن علي حدثنا أبي عن عطاء بن السائب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس موقوفا عليه بلفظ: " تفكروا في كل شيء، ولا تفكروا في ذات الله عز وجل، فإن بين السماء السابعة إلى كرسيه سبعة آلاف نور، وهو فوق ذلك ". __________جزء : 4 /صفحہ : 396__________ وهذا إسناد ضعيف، عطاء كان اختلط. وعاصم بن علي وأبوه فيهما ضعف، وابنه خير منه. وعزاه السيوطي لأبي الشيخ أيضا في " العظمة "، فالظاهر أنه مرفوع عنده، فإن كان كذلك، فما أظن إسناده خيرا من هذا. وبالجملة فالحديث بمجموع طرقه حسن عندي. والله أعلم. ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 9 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 9
فوائد:
اگر کوئی انسان اللہ تعالی کی ذات کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا صرف ایک حل ہے کہ اس کی مخلوقات میں غور و فکر کر کے اس کی ذات و صفات کی عظمتوں کا اندازہ لگا لے، مثلاََ آسمان، سورج، چاند، ستارے، سیارے اور زمین جیسی بڑی بڑی مخلوقات بغیر کسی سہارے کے کھڑی ہیں، ان میں سے ہر ایک کے ارد گرد خلا ہے، سمندروں اور ان کی لہروں کو مد نظر رکھیں، زمین میں نوع بنوع خزانوں پر نظر دوڑائیں، آسمانوں سے برستی ہوئے بارش پر غور کریں، قسما قسم کے حیوانات، نباتات اور چرند پرند کو دیکھیں۔ بالآخر کہنا پڑے گا کہ جس ذات کی مخلوق کا یہ عالم ہے، وہ خود کتنی عظیم ہو گی۔ ہم تو اس کی مخلوق کے حقائق کو نہیں سمجھ سکتے، اس کی ذات کو کیسے پرکھیں گے؟ جو بندہ چاند سے اوپر نہیں جا سکتا ہے، وہ ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش معلٰی پر جلوہ افروز ذات کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے؟ اللہ تعالی کی ذات اتنی عظیم سے عظیم تر ہے کہ اس کی عظمتوں کا اندازہ لگانا کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: «إنّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ٥ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ فِيمَا وَ فَعُودًا وَ عَلَى جُنوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا ما خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِه»[سورة آل عمران: 191، 190] ”آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناََ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو اللہ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا، تو پاک ہے، پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔“
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کے اس ترتیب شدہ نظام کے پیچھے ایک ذات ہے، جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔
اس حدیث کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اللہ تعالی کی ذات، اسمائے حسنی اور صفاتِ علیا کو من و عن تسلیم کریں اور ان کی کیفیت کے بارے میں اپنے دماغ کو مت کھپائیں۔ اتنا جان لینا کافی ہے کہ اللہ تعالی عرش پر ہے، اس کی ایک ذات ہے، اس کے ہاتھ ہیں، وہ ہنستا ہے، وہ ناراض ہوتا ہے، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ «علي هذا القياس» لیکن ان امور میں سے کسی کے بارے میں یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اور اس کی فلاں صفت یا کیفیت کیسے ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 9