سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت دینے کی فضیلت
حدیث نمبر: 10
- (أشهد أن لا إله إلا الله، وأنِّي رسول الله، لا يأتي بهما عبدٌ مُحِقٌ إلاّ وقاه الله حرّ النّار).
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! دشمن شکم سیر ہو کر پہنچ چکا ہے اور ہم بھوکے ہیں (کیا بنے گا)؟ انصار نے کہا: کیا ہم اونٹ ذبح کر کے لوگوں کو کھلا نہ دیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد کھانا ہے، وہ لے آئے۔“ کوئی ایک مد لے کر آیا تو کوئی ایک صاع اور کوئی زیادہ لے کر آیا تو کوئی کم۔ پورے لشکر میں سے چوبیس صاع (تقریباً پچاس کلو گرام) جمع ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھیر کے ساتھ بیٹھ گئے، برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”لینا شروع کر دو اور لوٹو مت“، لوگوں نے اپنے اپنے تھیلے، بوریاں اور برتن بھر لیے، حتی کہ بعض افراد نے اپنی آستینیں باندھ کر ان کو بھی بھر لیا، وہ سب فارغ ہو گئے اور اناج ویسے کا ویسا ہی پڑا رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ جو بندہ حق کے ساتھ یہ دو (گواہیاں) لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی حرارت سے بچائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلي في ”مسنده“: 199/1 - 230/200 - والسياق لـس، والبزار: 11/13/1»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 10 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 10
فوائد:
«لا إِلَهَ إِلَّا الله» کلمہ توحید ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صرف اللہ تعالی معبود برحق ہے، وہ اس لائق ہے کہ محض اس کی پرستش کی جائے، ماسوائے اللہ کے تمام قسم کے معبود، معبودان باطلہ ہیں، ایمان کے بیشمار شعبوں میں «لا اله إِلَّا الله» کو سب سے زیادہ بلند مقام حاصل ہے، کیونکہ یہی ذکر ہے جس کا اقرار کرنے سے دائرہ اسلام میں داخلہ نصیب ہوتا ہے اور جس کے انکار سے ارتداد و کفر کی صف میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
اللہ تعالی پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات کو من و عن تسلیم کیا جائے اور صفات کے تقاضوں پر یقین کامل رکھا جائے، بطور مثال رزق دینا اللہ تعالی کی صفت ہے اور رزق کے لئے جائز اسباب و ذرائع استعمال کرنے کا حکم بھی اللہ تعالی نے ہی دیا ہے، اب جو انسان حرام و سائل کے ذریعے رزق اکٹھا کرتا ہے یا حلال اسباب استعمال کرنے کے بعد کمی کے ڈر سے صدقہ نہیں کرتا یا نماز کے وقت دوکان بند کر کے نماز نہیں پڑھتا، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اللہ تعالی کے رزاق ہونے کا تقاضا پورا نہیں کر رہا، اور اسے اللہ تعالیٰ کی صفت ”رزق دینا“ پر مکمل اعتماد نہیں ہے، ایمان و ایقان صرف خیالی پلاؤ کا نام نہیں بلکہ اس کا اعمال کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
تمام آیات و احادیث کی روشنی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی شہادت دینے کا مفہوم یہ ہو گا کہ آپ صلى الله عليه وسلم خاتم النبیین اور خاتم الرسل ہیں، صاحب قرآن ہیں، دینی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں، اختلافی معاملات اور متنازعہ امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حتمی حاکم اور ثالث سمجھا جائے اور آپ سے پہلے نبوت و رسالت کے منصب پر فائز ہونے والے انبیاء و رسل کو برحق سمجھا جائے اور یہ کہ ان تمام کی شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں۔
حدیث مبارکہ کے پہلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی علامت اور دلیل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس معجزہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کی شہادت کی فضیلت بیان کی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أَكْثرُوا مِنْ شَهَادَةِ أَن لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قبل أن يُحَالَ بَيْنَكُم وبينها وَلَقَنُوهَا مَوْتَاكُمْ» [صحيحه: 467]
”اللہ تعالیٰ کے معبودِ برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو قبل اس کے کہ تمھارے اور اس کے مابین کوئی رکاٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
اس حدیث مبارکہ میں «أَشْهَدُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله» کا زندگی میں کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ مسلمان اس ذکر کے عظیم ثواب سے محروم نہ رہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ معلوم نہیں کہ آیا موت کے وقت اللہ تعالی کی وحدانیت کی شہادت کا موقع ملے گا یا نہیں، اس لیے موت سے پہلے ہی آخرت کی مکمل تیاری کر لینی چاہیے۔ قارئین کرام! آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض افراد حادثات اور بعض بیماریوں کی وجہ سے اچانک لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور بعض افراد ہمارے سامنے مر رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ اس کلمے کا درد نہیں کر سکتے۔ سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایسے مراحل عبور کرنے سے پہلے ہی توشہ آخرت تیار کر لینا چاہیے، حدیث کے دوسرے حصے میں قریب المرگ آدمی کو کلمۂ تو حید کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات سے اللہ تعالی پر اور آپ پر اعتقاد میں رسوخ پیدا ہوتا ہے۔
مد اور صاع پیمانے ہیں، صاع کا وزن تقریبا دو کلو سو گرام ہوتا ہے اور مد، صاع کا چوتھا حصہ ہوتا ہے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 10