-" لو تعلمون قدر رحمة الله عز وجل لاتكلتم وما عملتم من عمل ولو علمتم قدر غضبه ما نفعكم شيء".-" لو تعلمون قدر رحمة الله عز وجل لاتكلتم وما عملتم من عمل ولو علمتم قدر غضبه ما نفعكم شيء".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت (کی وسعت) کا اندازہ ہو جائے تو تم توکل (کر کے بیٹھ جاؤ اور) کوئی عمل نہ کرو اور اگر تمہیں اس کے غضب کا اندازہ ہو جائے تو (تم یہ سمجھ لو کہ) تمہیں کوئی عمل نفع نہیں دے گا۔“
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अगर तुम्हें अल्लाह तआला की रहमत का अंदाज़ा हो जाए तो तुम तवक्कल (करके बैठ जाओ और) कर्म करना छोड़ दो और अगर तुम्हें उसके ग़ुस्से का अंदाज़ा हो जाए तो (तुम ये समझ लो कि) तुम को कोई कर्म लाभ नहीं देगा।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2167
تخریج الحدیث: «رواه ابن أبى الدنيا فى ”حسن الظن“: 1/193/2، والبزار»
قال الشيخ الألباني: - " لو تعلمون قدر رحمة الله عز وجل لاتكلتم وما عملتم من عمل ولو علمتم قدر غضبه ما نفعكم شيء ". _____________________ رواه ابن أبي الدنيا في " حسن الظن " (2 / 193 / 1) عن موسى الأسواري عن عطية عن ابن عمر مرفوعا. __________جزء : 5 /صفحہ : 200__________ قلت: وعطية ضعيف. لكن قال الهيثمي (10 / 213) : " رواه البزار، وإسناده حسن "! كذا قال، وبالرجوع إلى " زوائد البزار " للهيثمي (4 / 85 / 3256) تبين أنه عند البزار من طريق الحجاج عن عطية نفسه! مع كون الحجاج - وهو ابن أرطأة - مدلسا. ومع ذلك سكت عنه الأعظمي في تعليقه على " الزوائد "! ثم رواه ابن أبي الدنيا من طريق قتادة مرسلا نحوه. قلت: فالحديث حسن، والله أعلم. ¤
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 8 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 8
فوائد:
جہاں مومن کو اللہ تعالی کی رحمت کی امید ہوتی ہے، وہاں اسے اللہ تعالی کے غضب سے ڈرنا بھی چاہیے، اللہ تعالی نے اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: «تتجا فى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَطَاجِحِ يَدْعُونَ ربِّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ»[سوره سجده: 16]
یعنی: ”ان کی کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں (یعنی رات کو نوافل کا اہتمام کرتے ہیں) اور اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دے رکھا ہے، وہ خرچ کرتے ہیں۔“
یعنی مومن لوگ اللہ کی رحمت اور فضل و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب و عقاب اور مواخذہ و عذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔ محض امید ہی نہیں کہ عمل سے بے پرواہ ہو جائیں، جیسے بے عمل اور بد عمل لوگوں کا رویہ ہے اور نہ عذاب کا اتنا خوف طاری کر لیتے ہیں کہ اس کی رحمت سے مایوس ہو جائیں۔ اس حدیث مبارکہ میں ان عمل خوروں کا ردّ ہے، جو اللہ تعالی کی رحمت کی وسعت کا سہارا لے کر اعمالِ صالحہ کے گراف میں کمی کرتے رہتے ہیں۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 8