وقوله تعالى: {ولا تجادلوا اهل الكتاب إلا بالتي هي احسن}.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَلاَ تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ}.
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ العنکبوت میں) «ولا تجادلوا أهل الكتاب إلا بالتي هي أحسن»”اور تم اہل کتاب سے بحث نہ کرو لیکن اس طریقہ سے جو اچھا ہو یعنی نرمی کے ساتھ اللہ کے پیغمبروں اور اس کی کتابوں کا ادب ملحوظ رکھ کر ان سے بحث کرو۔“
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح حدثني محمد بن سلام، اخبرنا عتاب بن بشير، عن إسحاق، عن الزهري، اخبرني علي بن حسين، ان حسين بن علي رضي الله عنهما اخبره، ان علي بن ابي طالب قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" طرقه وفاطمة عليها السلام بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهم: الا تصلون؟، فقال علي: فقلت: يا رسول الله، إنما انفسنا بيد الله فإذا شاء ان يبعثنا بعثنا، فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال له ذلك ولم يرجع إليه شيئا، ثم سمعه وهو مدبر يضرب، فخذه وهو يقول: وكان الإنسان اكثر شيء جدلا سورة الكهف آية 54"، قال ابو عبد الله: يقال ما اتاك ليلا فهو طارق، ويقال الطارق: النجم، والثاقب: المضيء، يقال: اثقب نارك للموقد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ: أَلَا تُصَلُّونَ؟، فَقَالَ عَلِيٌّ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهُ ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ شَيْئًا، ثُمَّ سَمِعَهُ وَهُوَ مُدْبِرٌ يَضْرِبُ، فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلا سورة الكهف آية 54"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: يُقَالُ مَا أَتَاكَ لَيْلًا فَهُوَ طَارِقٌ، وَيُقَالُ الطَّارِقُ: النَّجْمُ، وَالثَّاقِبُ: الْمُضِيءُ، يُقَالُ: أَثْقِبْ نَارَكَ لِلْمُوقِدِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عتاب بن بشیر نے خبر دی، انہیں اسحاق ابن ابی راشد نے، انہیں زہری نے، انہیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے اور فاطمہ بنت رسول اللہ علیم السلام والصلٰوۃ کے گھر ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھانا چاہے تو ہم کو اٹھا دے گا۔ جوں ہی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا تو آپ پیٹھ موڑ کر واپس جانے لگے اور کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا»”اور انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے“ اگر کوئی تمہارے پاس رات میں آئے تو «طارق» کہلائے گا اور قرآن میں جو «والطارق» کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ستارہ ہے اور «ثاقب» بمعنی چمکتا ہوا۔ عرب لوگ آگ جلانے والے سے کہتے ہیں «ثقب نارك» یعنی آگ روشن کر۔ اس سے لفظ «ثاقب» ہے۔
Narrated `Ali bin Abi Talib: That Allah's Apostle came to him and Fatima the daughter of Allah's Apostle at their house at night and said, "Won't you pray?" `Ali replied, "O Allah's Apostle! Our souls are in the Hands of Allah and when he wants us to get up, He makes us get up." When `Ali said that to him, Allah's Apostle left without saying anything to him. While the Prophet was leaving, `Ali heard him striking his thigh (with his hand) and saying, "But man is quarrelsome more than anything else." (18.54)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 446
ألا تصلون قال علي فقلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف رسول الله حين قلت ذلك ولم يرجع إلي شيئا ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه ويقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصلون فقال علي فقلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف رسول الله حين قال له ذلك ولم يرجع إليه شيئا ثم سمعه وهو مدبر يضرب فخذه وهو يقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصليان فقلت يا رسول الله أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف حين قلنا ذلك ولم يرجع إلي شيئا ثم سمعته وهو مول يضرب فخذه وهو يقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصلون فقلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا فانصرف رسول الله حين قلت له ذلك ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه ويقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
ألا تصلون قلت يا رسول الله إنما أنفسنا بيد الله فإذا شاء أن يبعثها بعثها فانصرف رسول الله حين قلت له ذلك ثم سمعته وهو مدبر يضرب فخذه ويقول وكان الإنسان أكثر شيء جدلا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7347
حدیث حاشیہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب بطریق انکار کے نہیں دیا مگر ان سے نیند کی حالت میں یہ کلام نکل گیا‘ اس میں شک نہیں کہ اگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز پڑھتے تو اور زیادہ افضل ہوتا۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو کہا وہ بھی درست تھا مگر کسی شخص کا جاگنا اور بیدار کرنا بھی اللہ ہی کا جگانا اور بیدار کرنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر کہ کہنا کہ جب اللہ ہم کو جگائے گا تو اٹھیں گے محض مجادلہ اور مکابرہ تھا‘ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے۔ اور تہجد کی نماز کچھ فرض نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مجبور کرتے۔ دوسرے ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد اٹھے ہوں اور تہجد کی نماز پڑھی ہو۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7347
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7347
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کے عنوان کے پہلے جز سے مطابقت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی رغبت دلائی کہ اٹھ کر اپنے عزم وارادے سے نماز پڑھیں لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضا وقدر کا سہارا لیا جیسا کہ عام طور پر کوئی عمل نہ کرنے کا بہانہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بر موقع بہانہ سازی سن کر تعجب کرتے ہوئے واپس ہوگئے، پھر نیند کا بھی غلبہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ سختی اس لیے نہیں کی کہ نماز تہجد فرض نہ تھی۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد عمل کرکے نماز پڑھتے تو اچھا تھا۔ 2۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قول یا فعل سے دفاع کرنا انسان کی فطرت ہے۔ بہرحال حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف غلبہ نیند کے باعث ترک قیام سے عذر خواہی کی تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان نیکی کے کسی کلام میں غفلت کر رہا ہو اسے یاد دلانا مشروع ہے کیونکہ غفلت انسان کی گھٹی میں شامل ہے۔ 3۔ کتاب الاعتصام سے اس حدیث کا تعلق یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بہتر یہی تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر عمل کر کے نماز پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7347
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1612
´قیام اللیل (تہجد) کی ترغیب کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور فاطمہ کو (دروازہ کھٹکھٹا کر) بیدار کیا، اور فرمایا: ”کیا تم نماز نہیں پڑھو گے؟“ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ انہیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا، جب میں نے آپ سے یہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ پڑے، پھر میں نے آپ کو سنا، آپ پیٹھ پھیر کر جا رہے تھے اور اپنی ران پر (ہاتھ) مار کر فرما رہے تھے: «وكان الإنسان أكثر شىء جدلا»”انسان بہت حجتی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1612]
1612۔ اردو حاشیہ: ➊ ”ہماری روحیں“ ان الفاظ کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ نیند میں روح کامل طور پر انسان سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے قبضے میں چلی جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: (اللہ یتوفی الانفس حین موتھا والتی لم تمت فی منامھا)(الزمر39: 42) لہٰذا روح کی واپسی ہی پر جاگ آئے گی۔ ➋ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما بھی نوجوان تھے۔ اس عمر میں رات کو نماز تہجد کے لیے جاگنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے کبھی ان سے سستی ہو جاتی ہو گی۔ معلوم ہوتا ہے یہ ان کی شادی کے ابتدائی دور کی بات ہے۔ ➌ ”کٹ حجت ہے“ کیونکہ اختیاری مسئلے میں تقدیر کو پیش کرنا کٹ حجتی ہے۔ تقدیر کا حوالہ وہاں دیا جائے گا جہاں اختیار نہ ہو، مثلاً: زندگی اور مت، صحت اور بیماری وغیرہ۔ نماز پڑھنا تو اختیاری مسئلہ ہے۔ اس میں تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کرنا صحیح نہیں کیونکہ ان معاملات میں امرونہی مدار ہے، نہ کہ تقدیر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1612
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1613
´قیام اللیل (تہجد) کی ترغیب کا بیان۔` علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں میرے اور فاطمہ کے پاس آئے، اور آپ نے ہمیں نماز کے لیے بیدار کیا، پھر آپ اپنے گھر لوٹ گئے، اور جا کر دیر رات تک نماز پڑھتے رہے، جب آپ نے ہماری کوئی آہٹ نہیں سنی تو آپ دوبارہ ہمارے پاس آئے، اور ہمیں بیدار کیا، اور فرمایا: ”تم دونوں اٹھو، اور نماز پڑھو“، تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا، میں اپنی آنکھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا: ”قسم اللہ کی، ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، اگر وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تو بیدار کر دے گا“ تو یہ سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹھ پھیر کر جانے لگے، آپ اپنے ہاتھ سے اپنی ران پر مار رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: ”ہم اتنی ہی پڑھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، ۱؎ انسان بہت ہی حجتی ہے۔“[سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1613]
1613۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ ➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ کوئی گستاخی یا نافرمانی نہیں بلکہ نیند سے جگائے جانے پر فطری اظہار ہے جو غیراختیاری کے قریب ہے۔ ➌ ”گویا توبیخ کے طور پر حضرت علی کے الفاظ ہی کو ان سے مختلف لہجے میں دہرا رہے تھے۔ عام طور پر ناپسندیدگی کے وقت ایسے کیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1613
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1818
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ان کے اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لائے اور فرما یا: ” تم اٹھ کر نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ تو میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسولﷺ! ہمارے نفوس اللہ کے ہاتھ میں ہیں تو جب وہ چاہتا ہے ہمیں بیدار کر لیتا ہے،یا حب اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے، جب میں نے آپﷺ سے یہ کہا آپﷺ واپس چلے گئے، پھر میں نے آپﷺ سے سنا کہ آپﷺ واپس پلٹتے ہو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1818]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ انسان اپنے عزیز واقارب اور متعلقین کو نفل ونوافل کی ترغیب دے اور ان کے حالات کی خبر گیری کرے۔ 2۔ انسان کو کسی کی نصیحت اور نیکی کے کام کی ترغیب پرکٹ حجتی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ بلکہ اس کو قبول کرنا چاہیے اور اپنے قصور وکوتاہی کا اعتراف کرنا چاہیے یا کوئی واقعی عذر پیش کرنا چاہیے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقدیر کو بہانہ بنایا۔ اس لیے آپﷺ نے اس کو پسند نہیں کیا، اورآپﷺ نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر اس پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا کہ انہوں نےفوراً بلا سوچے سمجھے یہ جواب کیوں دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1818
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4724
4724. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ”تم لوگ نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے؟“ رَجْمًۢا بِٱلْغَيْبِ کے معنی ہیں: خود انہیں کچھ معلوم نہیں، یعنی بغیر علم کے رائے زنی کرنا۔ فُرُطًا کے معنی ہیں: ندامت اور شرمندگی۔ سُرَادِقُهَا کا مطلب ہے کہ قناتوں کی طرح ہر طرف سے انہیں آگ گھیر لے گی جس طرح کوٹھڑی اور حجرے کو ہر طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ يُحَاوِرُهُۥٓ، محاورة سے نکلا ہے، یعنی گفتگو کرنا۔ لَّـٰكِنَّا۠ هُوَ ٱللَّـهُ رَبِّى دراصل یہ تھا: لكن أنا هو الله ربي، پھر "أنا" کا الف حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا گیا، لہذا یہ لَّـٰكِنَّا۠ ہو گیا۔ وَفَجَّرْنَا خِلَـٰلَهُمَا نَهَرًا کے معنی ہیں: ہم نے ان دونوں (باغوں) کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔ زَلَقًا کے معنی ہیں: ایسا چکنا چپڑا (میدان) جس میں پاؤں پھسل جائیں، جم نہ سکیں۔ هُنَالِكَ ٱلْوَلَـٰيَةُ میں الولاية ولي کا مصدر ہے۔ عُقْبًا کے معنی ہیں: عاقبت، یعنی انجام۔ عاقبة، عقبى اور عقبة سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4724]
حدیث حاشیہ: مذکورہ حدیث باب التہجد میں گزر چکی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اتنا ٹکڑا بیان کر کے پوری حدیث کی طرف اشارہ کر دیا اور اس کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے اختیار میں ہیں وہ جب ہم کو جگانا چاہے گا جگا دے گا یہ سن کر لوٹ گئے کچھ نہیں فرمایا بلکہ ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھتے جاتے تھے۔ ﴿وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾(الکهف: 54)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4724
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1127
1127. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاجزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:”تم دونوں نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1127]
حدیث حاشیہ: یعنی آپ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ ؓ کو رات کی نماز کی طرف رغبت دلائی، لیکن حضرت علی ؓ کا عذر سن کر آپ چپ ہو گئے۔ اگر نماز فرض ہوتی تو حضرت علی ؓ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ جاتے ہوئے تاسف کا اظہار ضرور کر دیا۔ مولانا وحید الزماں لکھتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کا جواب فی الحقیقت درست تھا مگر اس کا استعمال اس موقع پر درست نہ تھا کیونکہ دنیادار کو تکلیف ہے اس میں نفس پر زور ڈال کر تمام اوامر الٰہی کو بجا لانا چاہیے۔ تقدیر پر تکیہ کر لینا اور عبادت سے قاصر ہو کر بیٹھنا اورجب کوئی اچھی بات کا حکم کرے تو تقدیر پر حوالہ کرنا کج بحثی اور جھگڑا ہے۔ تقدیر کا اعتقاد اس لیے نہیں ہے کہ آدمی اپاہج ہو کر بیٹھ رہے اور تدبیر سے غافل ہوجائے۔ بلکہ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ محنت اور مشقت اور اسباب حاصل کرنے میں کوشش کرے مگر یہ سمجھے رہے کہ ہوگا وہی جو اللہ نے قسمت میں لکھا ہے۔ چونکہ رات کا وقت تھا اور حضرت علی ؓ آپ سے چھوٹے اور داماد تھے، لہٰذا آپ نے اس موقع پر تطویل بحث اور سوال جواب کو نامناسب سمجھ کر جواب نہ دیا مگر آپ ﷺ کو اس جواب سے افسوس ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1127
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7465
7465. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ ایک رات رسول اللہﷺ ان کے اور اپنی لخت جگر سیدہ فاظمہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: ”تم لوگ (تہجد کی) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ جن میں نے یہ بات کہی تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے آپ کو واپس جاتے ہوئے کہتے سنا جبکہ آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ فرما رہے تھے: ”انسان ہمیشہ سے تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7465]
حدیث حاشیہ: یہ سورۂ کہف کی آیت (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا)(الکهف: 54) کا ترجمہ ہے حضرت علی کا جواب حقیقت کے لحاظ سے تو صحیح تھا۔ مگر ادب کا تقاضا یہ تھا کہ اس نماز کی توفیق کے لیے اللہ سے دعا کرتے اورآنخضرت ﷺ سےکراتے تو بہترہوتا اور رسول کریم ﷺ بھی خوش خوش لوٹتے مگر (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا) باب اور جملہ احادیث سےحضرت امام بخاری کا مقصد جبریہ قدریہ معتزلہ جیسے گمراہ فرقوں کی تردید کرنا ہے جو مشیت اور ارادہ الہی میں فرق کرتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7465
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1127
1127. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاجزادی حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:”تم دونوں نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری جانیں تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1127]
حدیث حاشیہ: 1۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے: حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ میرے اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ ؓ کے پاس آئے اور ہمیں نماز تہجد کے لیے اٹھایا، پھر واپس اپنے گھر چلے گئے اور کچھ رات تک نماز پڑھتے رہے لیکن ہمارے بیدار ہونے اور نماز پڑھنے کے متعلق کوئی حس و حرکت نہ سنی، اس لیے دوبارہ تشریف لائے، ہمیں اٹھایا اور نماز پڑھنے کے متعلق فرمایا۔ میں نے اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم تو اتنی دیر ہی نماز پڑھ سکتے ہیں جس قدر اللہ تعالیٰ نے ہماری تقدیر میں لکھا ہے اور ہماری جانیں تو اللہ کے قبضے میں ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ واپس ہو گئے اور کچھ جواب نہ دیا، البتہ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ ضرور فرمایا: ”انسان بہت ہی جھگڑالو ہے۔ “(سنن النسائي، قیام اللیل، حدیث: 1813)(2) تقدیر کے بہانے ترک عمل کو قرآن کریم نے جدل سے تعبیر کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کے تقدیر پر بھروسا کرنے کو پسند نہیں فرمایا، کیونکہ اگر کسی کو کوئی کام کرنے کی طاقت نہ ہو تو وہ معذور ہے مگر جو شخص اپنے آپ کو قدرت کے باوجود عمل کے لیے تیار نہیں کرتا بلکہ تقدیر کا بہانہ بنا کر پست ہمتی کا شکار ہوتا ہے تو وہ مجادل ہے، معذور نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا انہیں بار بار بیدار کرنا نماز تہجد کے متعلق ترغیب کو ثابت کرتا ہے، لیکن انہیں اس کے ترک پر ملامت نہ کرنا اس کے عدم وجوب کی دلیل ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو اس سلسلے میں سختی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ (فتح الباري: 18/3) رسول اللہ ﷺ حضرت علی ؓ کا جواب سن کر خاموش ہو گئے۔ اگر یہ نماز فرض ہوتی تو حضرت علی ؓ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1127
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4724
4724. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ”تم لوگ نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے؟“ رَجْمًۢا بِٱلْغَيْبِ کے معنی ہیں: خود انہیں کچھ معلوم نہیں، یعنی بغیر علم کے رائے زنی کرنا۔ فُرُطًا کے معنی ہیں: ندامت اور شرمندگی۔ سُرَادِقُهَا کا مطلب ہے کہ قناتوں کی طرح ہر طرف سے انہیں آگ گھیر لے گی جس طرح کوٹھڑی اور حجرے کو ہر طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ يُحَاوِرُهُۥٓ، محاورة سے نکلا ہے، یعنی گفتگو کرنا۔ لَّـٰكِنَّا۠ هُوَ ٱللَّـهُ رَبِّى دراصل یہ تھا: لكن أنا هو الله ربي، پھر "أنا" کا الف حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا گیا، لہذا یہ لَّـٰكِنَّا۠ ہو گیا۔ وَفَجَّرْنَا خِلَـٰلَهُمَا نَهَرًا کے معنی ہیں: ہم نے ان دونوں (باغوں) کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔ زَلَقًا کے معنی ہیں: ایسا چکنا چپڑا (میدان) جس میں پاؤں پھسل جائیں، جم نہ سکیں۔ هُنَالِكَ ٱلْوَلَـٰيَةُ میں الولاية ولي کا مصدر ہے۔ عُقْبًا کے معنی ہیں: عاقبت، یعنی انجام۔ عاقبة، عقبى اور عقبة سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4724]
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ حدیث کتاب التہجد (1127) میں گزر چکی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ الفاظ بیان کر کے پوری حدیث کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ اس حدیث کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری جانیں اللہ کے اختیارمیں ہیں وہ جب ہمیں بیدار کرنا چاہے گا، کردے گا یہ سن کرآپ لوٹ گئے اور کچھ نہ کہا بلکہ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھتے جاتے تھے: ”انسان سب سے زیادہ جھگڑالوہے۔ “2۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شرعی حکم کو تقدیر سے رد کرنے کی کوشش کی، حالانکہ تقدیرتو صرف پریشانی دور کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگراحکام شرعیہ میں بھی تقدیر کو استعمال کیا جائے توانبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4724
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7465
7465. سیدنا علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ ایک رات رسول اللہﷺ ان کے اور اپنی لخت جگر سیدہ فاظمہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا: ”تم لوگ (تہجد کی) نماز کیوں نہیں پڑھتے؟“ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہے گا اٹھا دے گا۔ جن میں نے یہ بات کہی تو رسول اللہ ﷺ واپس چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے آپ کو واپس جاتے ہوئے کہتے سنا جبکہ آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ فرما رہے تھے: ”انسان ہمیشہ سے تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7465]
حدیث حاشیہ: 1۔ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ جس بات کو نہ ماننے کا تہیہ کر لے اس پر طرح طرح کے اعتراض وارد کرتا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے”عذ رگناہ بدتر از گناہ“ کے طور پر جواب پیش کرتا ہے۔ اس غرض کے لیے سب سے عمدہ بہانہ مشیت الٰہی کا ہوتا ہے۔ مشیت الٰہی کو اپنے بچاؤ کے لیے ڈھال بنانے والے عموماً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں بہت فرق ہے۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ کی رضا اس بات میں ہے کہ سب لوگ اس کے فرمانبردار بن جائیں اور کوئی شخص بھی کفرو شرک اور ظلم و زیادتی کا راستہ اختیار نہ کرے مگر اس کی مشیت یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا امتحان لیا جائے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت تمیز اور قوت ارادہ عطا فرمائی ہے پھر جو شخص اپنے اختیار و ارادے سے اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہوا اسے اچھا بدلہ دیا جائے گا۔ اور جس نے کفر وشرک کا راستہ اختیار کیا اسے سزا دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت کے راستے پر چلنا مشیت الٰہی بھی ہے اور رضائے الٰہی بھی مگر کفر و شرک کا راستہ اختیار کرنا مشیت الٰہی تو ہے لیکن رضائے الٰہی نہیں۔ مشیت الٰہی کو بہانہ بنانے کی مثال مذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ 2۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب حقیقت کے لحاظ سے تو صحیح تھا اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہیں دیا۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر افسوس ہوا کہ عمل کرنے کا اختیار انسان کو دیا گیا ہے اسے کیوں نظر انداز کردیا گیا۔ ادب کا تقاضا یہ تھا کہ نماز تہجد کی توفیق کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دعا کی اپیل کرتے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش خوش واپس ہوتے۔ 3۔ اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ مشیت الٰہی کو بطور بہانہ استعمال کرنا صرف ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں ہی کا کام نہیں بلکہ بعض دفعہ ایک نیکوکار مومن بھی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے اسے استعمال کر لیتا ہے حالانکہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق مشرکین نے اپنے شرک کے جواز میں اسی مشیت الٰہی کو بطور بہانہ استعمال کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”مشرک کہیں گے۔ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام ٹھہراتے۔ “(الأنعام: 148) بہر حال لوگوں پر شریعت کے احکام کی متابعت لازم ہے۔ اس متابعت کو مشیت الٰہی کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے جبر یہ قدریہ اور معتزلہ کی تردید کی ہے جو مشیت اور ارادے میں فرق کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7465