وقال مسور سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول إلا ان يريد ابن ابي طالبوَقَالَ مِسْوَرٌ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ
اور مسور بن مخرمہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ ابوطالب کا بیٹا میری بیٹی کو طلاق دیدے۔“
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح حدثنا إسماعيل، قال: حدثني اخي، عن سليمان، عن محمد بن ابي عتيق، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، ان اسامة بن زيد رضي الله عنهما، اخبره" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب على حمار عليه قطيفة فدكية واسامة وراءه يعود سعد بن عبادة في بني حارث بن الخزرج قبل وقعة بدر، فسارا حتى مرا بمجلس فيه عبد الله بن ابي ابن سلول، وذلك قبل ان يسلم عبد الله بن ابي، فإذا في المجلس اخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الاوثان واليهود، وفي المسلمين عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة، خمر ابن ابي انفه بردائه وقال: لا تغبروا علينا، فسلم رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم، ثم وقف فنزل فدعاهم إلى الله، وقرا عليهم القرآن، فقال له عبد الله بن ابي ابن سلول: ايها المرء لا احسن مما تقول، إن كان حقا فلا تؤذنا به في مجالسنا، فمن جاءك فاقصص عليه. قال عبد الله بن رواحة: بلى يا رسول الله، فاغشنا في مجالسنا فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون والمشركون واليهود حتى كادوا يتثاورون، فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكتوا، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم دابته، فسار حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اي سعد، الم تسمع ما قال ابو حباب؟ يريد عبد الله بن ابي"، قال: كذا وكذا، فقال سعد بن عبادة: اي رسول الله بابي انت اعف عنه واصفح، فوالذي انزل عليك الكتاب لقد جاء الله بالحق الذي انزل عليك، ولقد اصطلح اهل هذه البحرة على ان يتوجوه ويعصبوه بالعصابة، فلما رد الله ذلك بالحق الذي اعطاك شرق بذلك فذلك فعل به ما رايت، فعفا عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه يعفون عن المشركين واهل الكتاب كما امرهم الله، ويصبرون على الاذى، قال الله تعالى: ولتسمعن من الذين اوتوا الكتاب سورة آل عمران آية 186 الآية وقال: ود كثير من اهل الكتاب سورة البقرة آية 109، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتاول في العفو عنهم ما امره الله به حتى اذن له فيهم، فلما غزا رسول الله صلى الله عليه وسلم بدرا، فقتل الله بها من قتل من صناديد الكفار وسادة قريش، فقفل رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه منصورين غانمين معهم اسارى من صناديد الكفار، وسادة قريش. قال ابن ابي ابن سلول ومن معه من المشركين عبدة الاوثان: هذا امر قد توجه، فبايعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام، فاسلموا.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَأُسَامَةُ وَرَاءَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي حَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَسَارَا حَتَّى مَرَّا بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ ابْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ وَقَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا، فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ، فَسَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْ سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُباب؟ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ"، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ، فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ لَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ وَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنِ الْمُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الْكِتَابِ كَمَا أَمَرَهُمُ اللَّهُ، وَيَصْبِرُونَ عَلَى الْأَذَى، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ سورة آل عمران آية 186 الْآيَةَ وَقَالَ: وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ سورة البقرة آية 109، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَوَّلُ فِي الْعَفْوِ عَنْهُمْ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ حَتَّى أَذِنَ لَهُ فِيهِمْ، فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا، فَقَتَلَ اللَّهُ بِهَا مَنْ قَتَلَ مِنْ صَنَادِيدِ الْكُفَّارِ وَسَادَةِ قُرَيْشٍ، فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَنْصُورِينَ غَانِمِينَ مَعَهُمْ أُسَارَى مِنْ صَنَادِيدِ الْكُفَّارِ، وَسَادَةِ قُرَيْشٍ. قَالَ ابْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ، فَبَايِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَسْلَمُوا.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن ابی شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کا بنا ہوا ایک کپڑا بچھا ہوا تھا، اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے یہ دونوں روانہ ہوئے اور راستے میں ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ عبداللہ نے ابھی تک اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے۔ بتوں کی پرستش کرنے والے کچھ مشرکین بھی تھے اور کچھ یہودی بھی تھے۔ مسلمان شرکاء میں عبداللہ بن رواحہ بھی تھے۔ جب مجلس پر (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی) سواری کا غبار اڑ کر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر ناک پر رکھ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اڑاؤ، اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (قریب پہنچنے کے بعد) انہیں سلام کیا اور کھڑے ہو گئے۔ پھر سواری سے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور قرآن مجید کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائیں۔ اس پر عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا کہ بھلے آدمی جو کلام تم نے پڑھا اس سے بہتر کلام نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ واقعی یہ حق ہے مگر ہماری مجلسوں میں آ کر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ جو تمہارے پاس جائے بس اس کو یہ قصے سنا دیا کرو۔ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ضرور، یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں بھی تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ اس معاملہ پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں کا جھگڑا ہو گیا اور قریب تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھا دیں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خاموش کرتے رہے آخر جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھے اور روانہ ہوئے۔ جب سعد بن عبادہ کے یہاں پہنچے تو ان سے فرمایا کہ اے سعد! تم نے نہیں سنا آج ابوحباب نے کس طرح باتیں کی ہیں۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ باتیں کہی ہیں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بولے، میرا باپ آپ پر صدقے ہو، یا رسول اللہ! آپ اسے معاف فرما دیں اور اس سے درگذر فرمائیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اللہ نے آپ کو سچا کلام دے کر یہاں بھیجا جو آپ پر اتارا۔ آپ کے تشریف لانے سے پہلے اس شہر (مدینہ منورہ) کے باشندے اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے (عبداللہ بن ابی کو) شاہی تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ باندھ دیں لیکن اللہ نے سچا کلام دے کر آپ کو یہاں بھیج دیا اور یہ تجویز موقوف رہی تو وہ اس کی وجہ سے چڑ گیا اور جو کچھ آپ نے آج ملاحظہ کیا، وہ اسی جلن کی وجہ سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ، مشرکین اور اہل کتاب سے جیسا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ درگزر کیا کرتے تھے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ”تم ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے (اذیت دہ باتیں) سنو گے۔“ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ”بہت سے اہل کتاب خواہش رکھتے ہیں۔“ الخ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں معاف کرنے کے لیے اللہ کے حکم کے مطابق توجیہ کیا کرتے تھے۔ بالآخر آپ کو (جنگ کی) اجازت دی گئی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کیا اور اللہ کے حکم سے اس میں کفار کے بڑے بڑے بہادر اور قریش کے سردار قتل کئے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ فتح مند اور غنیمت کا مال لیے ہوئے واپس ہوئے، ان کے ساتھ کفار قریش کے کتنے ہی بہادر سردار قید بھی کر کے لائے تو اس وقت عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے بت پرست مشرک ساتھی کہنے لگے کہ اب ان کا کام جم گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لو، اس وقت انہوں نے اسلام پر بیعت کی اور بظاہر مسلمان ہو گئے (مگر دل میں نفاق رہا)۔
Narrated Usama bin Zaid: That Allah's Apostle rode over a donkey covered with a Fadakiya (velvet sheet) and Usama was riding behind him. He was visiting Sa`d bin 'Ubada (who was sick) in the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj and this incident happened before the battle of Badr. They proceeded till they passed by a gathering in which `Abdullah bin Ubai bin Salul was present., and that was before `Abdullah bin Ubat embraced Islam. In that gathering there were Muslims, pagan idolators and Jews, and among the Muslims there was `Abdullah bin Rawaha. When a cloud of dust raised by (the movement of ) the animal covered that gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his garment and said, "Do not cover us with dust." Allah's Apostle greeted them, stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e. to embrace Islam) and recited to them the Holy Qur'an. On that `Abdullah bin Ubai bin Salul said to him, "O man! There is nothing better than what you say, if it is the truth. So do not trouble us with it in our gatherings, but if somebody comes to you, you can preach to him." On that `Abdullah bin Rawaha said "Yes, O Allah's Apostle! Call on us in our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing one another till they were about to fight with one another. Allah's Apostle kept on quietening them till all of them became quiet, and then Allah's Apostle rode his animal and proceeded till he entered upon Sa`d bin 'Ubada. Allah's Apostle said, "O Sa`d! Didn't you hear what Abu Habab said?" (meaning `Abdullah bin Unbar). "He said so-and-so." Sa`d bin Ubada said, "O Allah's Apostle! Let my father be sacrificed for you ! Excuse and forgive him for, by Him Who revealed to you the Book, Allah sent the Truth which was revealed to you at the time when the people of this town had decided to crown him (`Abdullah bin Ubai) as their ruler. So when Allah had prevented that with the Truth He had given you, he was choked by that, and that caused him to behave in such an impolite manner which you had noticed." So Allah's Apostle excused him. (It was the custom of) Allah's Apostle and his companions to excuse the pagans and the people of the scripture (Christians and Jews) as Allah ordered them, and they used to be patient when annoyed (by them). Allah said: 'You shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you.....and from the pagans (3.186) He also said: 'Many of the people of the scripture wish that if they could turn you away as disbelievers after you have believed. .... (2.109) So Allah's Apostle used to apply what Allah had ordered him by excusing them till he was allowed to fight against them. When Allah's Apostle had fought the battle of Badr and Allah killed whomever He killed among the chiefs of the infidels and the nobles of Quraish, and Allah's Apostle and his companions had returned with victory and booty, bringing with them some of the chiefs of the infidels and the nobles of the Quraish as captives. `Abdullah bin Ubai bin Salul and the pagan idolators who were with him, said, "This matter (Islam) has now brought out its face (triumphed), so give Allah's Apostle the pledge of allegiance (for embracing Islam.)". Then they became Muslims.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 226
ركب على حمار على إكاف على قطيفة فدكية وأردف أسامة وراءه يعود سعد بن عبادة قبل وقعة بدر مر بمجلس فيه عبد الله بن أبي ابن سلول وذلك قبل أن يسلم عبد الله وفي المجلس أخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الأوثان واليهود وفي المجلس عبد الله بن رواحة فلما غشيت المجل
ركب على حمار عليه قطيفة فدكية وأسامة وراءه يعود سعد بن عبادة في بني حارث بن الخزرج قبل وقعة بدر مرا بمجلس فيه عبد الله بن أبي ابن سلول وذلك قبل أن يسلم عبد الله بن أبي فإذا في المجلس أخلاط من المسلمين والمشركين عبدة الأوثان واليهود وفي المسلمين عبد الله ب
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6207
حدیث حاشیہ: سند میں عروہ بن زبیر فقہائے سبعہ مدینہ سے ہیں جن کے اسماء گرامی اس نظم میں ہیں۔ إذا قیل من في العلم سبعة أبحر روایتھم لیست عن العلم خارجة فقل ھم عبیداللہ عروة قاسم سعید أبو بکر سلیمان خارجة۔ یہ ساتوں بزرگ مدینہ طیبہ میں ایک ہی زمانے میں تھے۔ اکثر ان میں سے 94ھ میں فوت ہوئے تو اس سال کا نام ہی عام الفقہاء پڑ گیا آخر باری باری 106ھ یا 107ھ تک سب رخصت ہوگئے۔ رحمهم اللہ أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6207
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2987
2987. حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ گدھے پر سوار ہوئے جس کی زین پر ایک دھاری دار چادر پڑی تھی اور آپ نے اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2987]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ ایک گدھے پر دو آدمی سوار ہوسکتے ہیں‘ بشرطیکہ وہ طاقتور ہو لفظ إکاف گدھے کے پالان کے لئے اسی طرح مستعمل ہے جس طرح گھوڑے کے لئے لفظ سرج مستعمل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2987
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5663
5663. حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5663]
حدیث حاشیہ: اس موقع پر آنحضرت گدھے پر سوار ہو کر مذکورہ صورت میں تشریف لے گئے تھے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ اس میں عبداللہ بن ابی منافق کا ذکر ضمنی طور پر آیا ہے۔ یہ منافق آپ کے مدینہ آنے سے پہلے اپنی بادشاہی کا خواب دیکھ رہا تھا جو آپ کی تشریف آوری سے غلط ہو گیا، اسی لیے یہ بظاہر مسلمان ہو کر بھی آخر وقت تک اسلام کی بیخ کنی کے درپے رہا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5663
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5964
5964. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا اور اس پر فدک کی بنی ہوئی چادر تھی آپ نے اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5964]
حدیث حاشیہ: اس میں اشارہ ہے کہ جب آدمی اپنے سواری پر بیٹھے تو گویا وہ سواری کا لباس بن جاتا ہے۔ اگر جانور طاقتور ہو تو دو یا تین تک ایک جانور پر سواری کر سکتے ہیں مگر کمزور پر نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5964
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5663
5663. حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5663]
حدیث حاشیہ: (1) اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ حدیث پیش کرنے سے یہی مقصد ہے۔ (2) حدیث میں عبداللہ بن ابی کا ذکر ضمنی طور پر آ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد سے پہلے یہ منافق اپنی سرداری کے خواب دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے خاک میں مل گئے، اس لیے یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آخر وقت تک اسلام کو ختم کرنے کے درپے رہا، پھر غم کے گھونٹ بھرتے بھرتے اسے موت نے آ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے وہ لائق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5663
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5964
5964. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان تھا اور اس پر فدک کی بنی ہوئی چادر تھی آپ نے اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5964]
حدیث حاشیہ: (1) سواری کی زینت یہ ہے کہ اس پر پالان رکھا جائے، پھر اس پر بہترین چادر بچھائی جائے اس طرح وہ سواری انسان کے لیے بھی باعث زینت ہے جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔ ایسے حالات میں انسان کو چاہیے کہ وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کسی ضرورت مند کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لے، اس سے وہ زینت قطعاً متاثر نہیں ہو گی۔ (2) دور حاضر میں لمبی لمبی کاریں اس مقصد کے لیے کام میں لائی جاتی ہیں جو انسان کے لیے زینت کا کام بھی دیتی ہیں، اس لیے اگر کار میں جگہ ہو اور پردہ داری متاثر نہ ہوتا ہو تو کسی مسافر کو ساتھ بٹھا لینا باعث اجروثواب ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5964