الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5964
حدیث حاشیہ:
(1)
سواری کی زینت یہ ہے کہ اس پر پالان رکھا جائے، پھر اس پر بہترین چادر بچھائی جائے اس طرح وہ سواری انسان کے لیے بھی باعث زینت ہے جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔
ایسے حالات میں انسان کو چاہیے کہ وہ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کسی ضرورت مند کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لے، اس سے وہ زینت قطعاً متاثر نہیں ہو گی۔
(2)
دور حاضر میں لمبی لمبی کاریں اس مقصد کے لیے کام میں لائی جاتی ہیں جو انسان کے لیے زینت کا کام بھی دیتی ہیں، اس لیے اگر کار میں جگہ ہو اور پردہ داری متاثر نہ ہوتا ہو تو کسی مسافر کو ساتھ بٹھا لینا باعث اجروثواب ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5964
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2987
2987. حضرت اسامہ بن زید ؓسے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ گدھے پر سوار ہوئے جس کی زین پر ایک دھاری دار چادر پڑی تھی اور آپ نے اسامہ ؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2987]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایک گدھے پر دو آدمی سوار ہوسکتے ہیں‘ بشرطیکہ وہ طاقتور ہو لفظ إکاف گدھے کے پالان کے لئے اسی طرح مستعمل ہے جس طرح گھوڑے کے لئے لفظ سرج مستعمل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2987
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5663
5663. حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5663]
حدیث حاشیہ:
اس موقع پر آنحضرت گدھے پر سوار ہو کر مذکورہ صورت میں تشریف لے گئے تھے۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
اس میں عبداللہ بن ابی منافق کا ذکر ضمنی طور پر آیا ہے۔
یہ منافق آپ کے مدینہ آنے سے پہلے اپنی بادشاہی کا خواب دیکھ رہا تھا جو آپ کی تشریف آوری سے غلط ہو گیا، اسی لیے یہ بظاہر مسلمان ہو کر بھی آخر وقت تک اسلام کی بیخ کنی کے درپے رہا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5663
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6207
6207. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ گدھے پر سوار ہوئے جس پر فدک کی نبی ہوئی چادر بچھی تھی جبکہ اسامہ آپ کے پیچھے سوار تھے۔ آپ ﷺ قبیلہ حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لے جا رہے تھے یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ دونوں حضرات چلتے رہے حتٰی کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں کچھ مسلمان بھی تھے، بتوں کی پرستش کرنے والے مشرک اور یہودی بھی تھے۔ مسلمانوں میں حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی موجود تھے، جب مجلس پر سواری کا غبار اڑکر پڑا تو عبداللہ بن ابی نے چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کہا۔ پھر وہاں ٹھہر گئے اور سواری سے اترے اور انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی، نیز انہیں قرآن پڑھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6207]
حدیث حاشیہ:
سند میں عروہ بن زبیر فقہائے سبعہ مدینہ سے ہیں جن کے اسماء گرامی اس نظم میں ہیں۔
إذا قیل من في العلم سبعة أبحر روایتھم لیست عن العلم خارجة فقل ھم عبیداللہ عروة قاسم سعید أبو بکر سلیمان خارجة۔
یہ ساتوں بزرگ مدینہ طیبہ میں ایک ہی زمانے میں تھے۔
اکثر ان میں سے 94ھ میں فوت ہوئے تو اس سال کا نام ہی عام الفقہاء پڑ گیا آخر باری باری 106ھ یا 107ھ تک سب رخصت ہوگئے۔
رحمهم اللہ أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6207
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5663
5663. حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5663]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ حدیث پیش کرنے سے یہی مقصد ہے۔
(2)
حدیث میں عبداللہ بن ابی کا ذکر ضمنی طور پر آ گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد سے پہلے یہ منافق اپنی سرداری کے خواب دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے خاک میں مل گئے، اس لیے یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آخر وقت تک اسلام کو ختم کرنے کے درپے رہا، پھر غم کے گھونٹ بھرتے بھرتے اسے موت نے آ لیا۔
اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے وہ لائق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5663