(مرفوع) حدثنا مالك بن إسماعيل، حدثنا زهير، حدثنا هشام بن عروة، ان عروة، اخبره، ان زينب ابنة ابي سلمة، اخبرته، ان ام سلمة، اخبرتها، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان عندها وفي البيت مخنث، فقال لعبد الله اخي ام سلمة:" يا عبد الله إن فتح الله لكم غدا الطائف فإني ادلك على بنت غيلان، فإنها تقبل باربع وتدبر بثمان"، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا يدخلن هؤلاء عليكن"، قال ابو عبد الله: تقبل باربع وتدبر، يعني اربع عكن بطنها فهي تقبل بهن، وقوله: وتدبر بثمان، يعني اطراف هذه العكن الاربع، لانها محيطة بالجنبين حتى لحقت، وإنما قال: بثمان، ولم يقل بثمانية وواحد الاطراف وهو ذكر، لانه لم يقل ثمانية اطراف".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، أَنَّ عُرْوَةَ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْنَبَ ابْنَةَ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، أَخْبَرَتْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَهَا وَفِي الْبَيْتِ مُخَنَّثٌ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ أَخِي أُمِّ سَلَمَةَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ إِنْ فَتَحَ اللَّهُ لَكُمْ غَدًا الطَّائِفَ فَإِنِّي أَدُلُّكَ عَلَى بِنْتِ غَيْلَانَ، فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ"، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَدْخُلَنَّ هَؤُلَاءِ عَلَيْكُنَّ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: تُقْبِلُ بِأَرْبَعٍ وَتُدْبِرُ، يَعْنِي أَرْبَعَ عُكَنِ بَطْنِهَا فَهِيَ تُقْبِلُ بِهِنَّ، وَقَوْلُهُ: وَتُدْبِرُ بِثَمَانٍ، يَعْنِي أَطْرَافَ هَذِهِ الْعُكَنِ الْأَرْبَعِ، لِأَنَّهَا مُحِيطَةٌ بِالْجَنْبَيْنِ حَتَّى لَحِقَتْ، وَإِنَّمَا قَالَ: بِثَمَانٍ، وَلَمْ يَقُلْ بِثَمَانِيَةٍ وَوَاحِدُ الْأَطْرَافِ وَهُوَ ذَكَرٌ، لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ ثَمَانِيَةَ أَطْرَافٍ".
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی اور انہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف رکھتے تھے۔ گھر میں ایک مخنث بھی تھا، اس نے ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا عبداللہ! اگر کل تمہیں طائف پر فتح حاصل ہو جائے تو میں تمہیں بنت غیلان (بادیہ نامی) کو دکھلاؤں گا وہ جب سامنے آتی ہے تو (اس کے موٹاپے کی وجہ سے) چار سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں اور جب پیٹھ پھیرتی ہے تو آٹھ سلوٹیں دکھائی دیتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب یہ شخص تم لوگوں کے پاس نہ آیا کرے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ سامنے سے چار سلوٹوں کا مطلب یہ ہے کہ (موٹے ہونے کی وجہ سے) اس کے پیٹ میں چار سلوٹیں پڑی ہوئی ہیں اور جب وہ سامنے آتی ہے تو وہ دکھائی دیتی ہیں اور آٹھ سلوٹوں سے پیچھے پھرتی ہے کا مفہوم ہے (آگے کی) ان چاروں سلوٹوں کے کنارے کیونکہ یہ دونوں پہلوؤں کو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر وہ مل جاتی ہیں اور حدیث میں «بثمان» کا لفظ ہے حالانکہ از روئے قائدہ نحو کے «بثمانية.» ہونا تھا کیونکہ مراد آٹھ اطراف یعنی کنارے ہیں اور «لأطراف»، «طرف» کی جمع ہے اور «طرف» کا لفظ مذکر ہے۔ مگر چونکہ «لأطراف» کا لفظ مذکور نہ تھا اس لیے «بثمان» بھی کہنا درست ہوا۔
Narrated Um Salama: that once the Prophet was in her house, and an effeminate man was there too. The effeminate man said to `Abdullah, (Um Salama's brother) "0 `Abdullah! If Ta'if should be conquered tomorrow, I recommend you the daughter of Ghailan, for she is so fat that she has four curves in the front (of her belly) and eight at the back." So the Prophet said (to his wives) "These effeminate (men) should not enter upon you (your houses).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 775
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5887
حدیث حاشیہ: کیونکہ جب ممیز مذکور نہ ہو تو عدد میں تذکیر وتانیث دونوں درست ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5887
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5887
حدیث حاشیہ: (1) عورت کے پیٹ پر سامنے کی جانب سے چار شکن اور جب پیٹھ پھیرے تو پہلوؤں کی جانب سے یہی چار شکن آٹھ بن جاتے ہیں۔ عربوں کے ہاں عورت کا اس انداز سے موٹے جسم والا ہونا خوبصورتی کی علامت تھی۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فسادی مزاج کے افراد کو گھروں سے نکال دینا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جس سے بھی لوگوں کو تکلیف ہو یا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو اسے وہاں سے نکال دینا مشروع ہے یہاں تک کہ وہ باز آ جائے۔ (فتح الباري: 10/411)(3) معاشرتی بگاڑ کا باعث چیزوں کو بھی گھر سے باہر نکال پھینکنا چاہیے۔ دور حاضر میں ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش، کیبل اور عریاں تصاویر پر مشتمل اخبارات و جرائد اسی ضمن میں آتے ہیں۔ کیمرے والے موبائل بھی معاشرے میں فساد پیدا کرتے ہیں، چنانچہ ان چیزوں کے برے اثرات ہمارے گھروں میں کھلی آنکھ سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5887
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4929
´ہجڑوں کے حکم کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لائے ان کے پاس ایک ہجڑا بیٹھا ہوا تھا اور وہ ان کے بھائی عبداللہ سے کہہ رہا تھا: اگر کل اللہ طائف کو فتح کرا دے تو میں تمہیں ایک عورت بتاؤں گا، کہ جب وہ سامنے سے آتی ہے تو چار سلوٹیں لے کر آتی ہے، اور جب پیٹھ پھیر کر جاتی ہے تو آٹھ سلوٹیں لے کر جاتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ۱؎۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: «تقبل بأربع» کا مطلب ہے عورت کے پیٹ میں چار سلوٹیں ہوتی ہیں یعنی پیٹ میں چربی چھا جانے کی وجہ سے خوب موٹی اور تیار ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4929]
فوائد ومسائل: فسادی مزاج افراد کو گھروں میں آنے جانے کا موقع دینا معاشرے میں فساد بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ اس لیے اپنے گھروں کو ان سے پاک صاف رکھنا ضروری ہے۔ تو موجودہ دور کے ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش، کیبل، نیز عریاں تصاویر والے رسالے اخبارات رسالے سبھی اسی ضمن میں آتے ہیں اور فی الواقع ان چیزوں کے نا گفتہ بہ اثرات بھی ہمارے گھروں اور ماحول میں نمایاں ہیں۔ و إلی اللہ المشتکی۔ ان سے چھُٹکارا حاصل کرنا واجب ہے۔ باب نمبر 54: گڑیوں سے کھیلنے کا بیان۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4929
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1902
´ہیجڑوں کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، وہاں ایک ہیجڑے کو سنا جو عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا تھا: اگر اللہ کل طائف کو فتح کر دے گا تو میں تم کو ایک عورت بتاؤں گا جو سامنے آتی ہے چار سلوٹوں کے ساتھ اور پیچھے مڑتی ہے آٹھ سلوٹوں کے ساتھ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1902]
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1) مخنث دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو پیدائشی طور پر صنفی طاقت سے محروم ہوتے ہیں اور ان میں اس قسم کے جذبات بھی نہیں ہوتے۔ دوسرے جو مرادانہ صفات کے حامل ہونے کے باوجود زنانہ وضع قطع اختیار کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے افراد اگر صنفی امور سے بالکل غافل ہوں اور ان کی توجہ صرف کھانے پینے کی طرف ہو تو ان سے پردہ کرنے کے حکم میں سختی نہیں البتہ اگر وہ صنفی امور سے واقف ہوں اور اس قسم کی بات چیت میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ان سے عام مردوں کی طرح پردہ کرنا چاہیے۔
(2) جو شخص پیدائشی طور پر مرد ہو لیکن وہ عورتوں کا لباس پہنے اور ان کی سی وضع قطع اختیار کرے اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مرد ہو کر عورت بننا لعنت کا باعت ہے۔
(3) غیر محرم مرد یا مخنث کو بے جھجک عورتوں کے پاس نہیں چلے جانا چاہیے۔ اگر وہ آجائے تو عورتوں کو چاہیے کہ پردہ کرلیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1902
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2614
´مخنثوں اور ہیجڑوں کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، تو ایک مخنث کو عبداللہ بن ابی امیہ سے یہ کہتے سنا کہ اگر اللہ تعالیٰ کل طائف فتح کرا دے، تو میں تمہیں ایسی عورت کے بار ے میں بتاؤں گا جو آگے کی طرف مڑتی ہے تو چار سلوٹیں پڑ جاتی ہیں، اور پیچھے کی جانب مڑتی ہے تو آٹھ سلوٹیں ہو جاتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان (مخنثوں) کو اپنے گھروں سے نکال دو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2614]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مخنث سے مراد وہ انسان ہے جس کے صنفی اعضاء میں مردوں اورعورتوں دونوں کے مشابہت پائی جاتی ہے۔ ایسا شخص شادی شدہ زندگی گزرارنے کے قابل نہیں ہوتا نہ بحثیت مرد نہ بحثیت عورت کےاگر ایک صنف سے مشابہت زیادہ ہوتو اس صنف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
(2) عرب میں ایسے افراد مردوں کی طرح لباس پہنتے اور مردوں کی طرح گھر سے باہر کام کرتے ہیں۔
(3) ان میں جو شخص عورتو ں کے خاص معاملات میں دلچسپی رکھتا ہو اس سے پردہ کرنا چاہیے۔
(4) ان میں سے جس شخص کوصنفی معاملات سے دلچسپی نہ ہو صرف کھانے پینے کا خیال ہو انھیں ﴿غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ﴾(النور 31: 18) یعنی خواہش نہ رکھنےوالے مردوں میں شمار کیا جاسکتا ہے ان سے عورتوں پر دہ فرض نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2614
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:299
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر وہ کام جس سے فحاشی پھیلے نہیں ہونا چاہیے، اور جو اس کا سبب بنے اس پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ نیز اس حدیث میں ہیجڑوں کی ایک بری عادت کا ذکر ہے کہ وہ عورتوں پر نظر رکھتے ہیں کہ فلاں عورت کیسی ہے اور فلاں عورت کیسی ہے، لیکن سارے برابر بھی نہیں ہوتے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ان کو عورتوں سے میل میلاپ سے منع کر نا چا ہیے۔ ہیجڑے کو معروف زبان میں خواجہ سرا اور کھسرے کہا جا تا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 299
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5690
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا ہوا تھا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود تھے تو اس نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھائی سے کہا، اے عبداللہ بن امیہ، اگر کل اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طائف فتح فرمایا تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی کا پتہ دوں گا، کیونکہ اس کے سامنے سے چار سلوٹیں نظر آتی ہیں اور پست پھیرنے پر سلوٹیں آٹھ بن جاتی ہیں، یعنی وہ خوب موٹی تازی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5690]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مخنث دو قسم کے ہوتے ہیں۔ (1) ہیجڑا جو طبعی طور پر عورتوں جیسا اخلاق، ان جیسی حرکات و سکنات اور ان جیسے طور و اطوار اپناتا ہے، یہ دینی طور پر معذور ہے، قابل مذمت نہیں ہے، اس کو عورتوں جیسے رویہ اور انداز کو بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ (2) زنانہ، جو جان بوجھ کر عمدا عورتوں جیسا رویہ اور گفتگو بنانے کی کوشش کرتا ہے، یہ قابل ملامت ہے، اگرچہ کسی بری حرکت کا ارتکاب نہ بھی کرے، ھیت نامی مخنث نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبدالرحمٰن دونوں کو کہا تھا کہ میں طائف کی فتح کے بعد تمہیں ثقیف کے ایک سردار غیلان بن سلمہ کی بیٹی بادیہ نامی کا پتہ دوں گا، وہ خوب موٹی تازہ اور عربی مزاج کے مطابق قابل کشش ہے، تم اسے لینے کی کوشش کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5690
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5235
5235. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ ان کے ہاں تشریف فرما تھے جبکہ گھر میں ایک مخنث (ہیجڑا) بھی تھا۔ اس نے ام سلمہ ؓ کے بھائی عبداللہ بن امیہ سے کہا: اگر کل اللہ تعالیٰ نے تمہیں طائف میں فتح دی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھاؤں گا۔ جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار شکن پڑتے ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو یہ شکن آٹھ ہو جاتے ہیں۔ نبی ﷺ نے (اس کی بات سن کر) فرمایا: ”آئندہ یہ مخنث تمہارے پاس نہ آئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5235]
حدیث حاشیہ: کیونکہ جب یہ عورتوں کے حسن و قبح کو پہچانتا ہے تو تمہارے حالات بھی جا کر اور مردوں سے بیان کرے گا۔ حافظ نے کہا اس حدیث سے ان لوگوں سے بھی پردے کا حکم نکلتا ہے جو عورتوں کا حسن و قبح پہچانیں، اگرچہ وہ زنانے یا ہیجڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ بعد میں حضرت غیلان اور ان کی یہ لڑکیاں مسلمان ہو گئے تھے۔ غیلان کے گھر دس عورتیں تھیں، آپ نے چار کے علاوہ اوروں کے چھوڑ دینے کا اس کو حکم فرمایا۔ (خیر الجاري)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5235
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4324
4324. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے ہاں نبی ﷺ تشریف لائے تو میرے پاس ایک مخنث بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ حضرت عبداللہ بن امیہ سے کہہ رہا تھا: اے عبداللہ! دیکھ اگر کل اللہ تعالٰی تمہیں طائف میں فتح عطا کرے تو غیلان کی بیٹی پر قبضہ کر لینا کیونکہ جب وہ آتی ہے تو اس کے آگے چار بل پڑتے ہیں اور جب جاتی ہے تو آٹھ بل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: ”آئندہ یہ لوگ (مخنث) تمہارے گھروں میں نہ آیا کریں۔“ ابن عیینہ نے ابن جریج کے حوالے سے بیان کیا کہ اس مخنث کا نام "ہیت" تھا۔ ایک روایت میں اس چیز کا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ اس وقت طائف کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4324]
حدیث حاشیہ: 1۔ قبیلہ ہوازن کے لوگ غزوہ حنین سے شکست کھا کر اوطاس آئے۔ یہاں سے منہ کی کھائی تو طائف میں قلعہ بند ہوگئے۔ آس پاس کی بستیوں سے سامان خورد نوش (کھانے پینے کا سامان) جمع کر کے خود محصور کر لیا تو رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کرنا ضروری خیال کیا۔ حدیث میں مذکورواقعہ اسی محاصرے کے دوران میں پیش آیا۔ 2۔ حضرت عبد اللہ بن امیہ ؓ جو حضرت ام سلمہ ؓ کے بھائی تھے فتح مکہ کے وقت حضرت ابو سفیان بن حارث ؓ کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے۔ مخنث انھی کا آزاد کیا ہوا تھا رسول اللہ ﷺ نے اسے بے ضررخیال کرکے گھر میں آنے جانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ جب اس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت عبد اللہ بن امیہ ؓ کو بادیہ بنت غیلان کے اوصاف بتائے اور اس کے موٹا پے کو مخصوص انداز میں بیان کیا تو پتہ چلا کہ یہ لوگ بھی عورتوں کے معاملے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں گویا دل پھینک قسم کے لوگ ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے گھر آنے جانے پر پابندی لگا دی بلکہ مدینہ طیبہ آنے کے بعد اسے مدینے سے نکال دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو حضرت ابو بکر ؓ نے اسے واپس لانے سے انکار کردیا۔ جب حضرت عمر ؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو ان سے گزارش کی گئی کہ ہیبت ضعیف اور کمزور ہو چکا ہے اسے صرف اتنی اجازت دیں کہ جمعے کے دن مدینے آجایا کرے اور لوگوں سے آٹھ دن کے اخراجات جمع کر کے اپنی جگہ چلاجایا کرے تو آپ نے اسے اس قدر اجازت دے دی۔ (عمدة القاري: 298/12) 3۔ حضرت ام سلمہ بنت امیہ ؓ کے بھائی حضرت عبد اللہ بن امیہ ؓ غزوہ طائف میں شہید ہو گئے۔ انھیں نامعلوم طرف سے تیرلگا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 55/8) ۔ ۔ نوٹ: ۔ عربوں کے ہاں موٹی عورت پسندیدہ ہے۔ بادیہ بنت غیلان بھی فربہ اور خوب موٹی تازی تھی ہیبت مخنث نے اس کے موٹا پے کو جس انداز سے بیان کیا امام بخاری ؒ نے اس کی کوبصورت توجیہ کی ہے کہ موٹا ہونے کی وجہ سے اس کے پیٹ پر چار شکن پڑتے ہیں تو پچھلی طرف سے چار دائیں جانب اور چار بائیں جانب معلوم ہوتے ہیں اس طرح پچھلی طرف آٹھ شکن بن جاتے ہیں۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5857)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4324
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5235
5235. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دفعہ ان کے ہاں تشریف فرما تھے جبکہ گھر میں ایک مخنث (ہیجڑا) بھی تھا۔ اس نے ام سلمہ ؓ کے بھائی عبداللہ بن امیہ سے کہا: اگر کل اللہ تعالیٰ نے تمہیں طائف میں فتح دی تو میں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھاؤں گا۔ جب وہ سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ پر چار شکن پڑتے ہیں اور جب پیچھے پھرتی ہے تو یہ شکن آٹھ ہو جاتے ہیں۔ نبی ﷺ نے (اس کی بات سن کر) فرمایا: ”آئندہ یہ مخنث تمہارے پاس نہ آئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5235]
حدیث حاشیہ: (1) ہیجڑوں کی دوقسمیں ہیں: ایک وہ جو پیدائشی ہوتے ہیں، وہ تو عورتوں کے حکم میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے منع نہیں فرمایا۔ دوسرے وہ جو تکلف سے ہیجڑے بنتے ہیں، یہ حرکت قابل مذمت ہے اور ایسے لوگوں کو عورتوں کے پاس آنا منع ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ان لوگوں سے بھی عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے جو عورتوں حسن و قبح کے (خوبصورتی اور بدصورتی) کو پہچانتے ہوں اگرچہ وہ زنانے اور ہیجڑے ہی کیوں نہ ہوں۔ (فتح الباري: 417/9) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قسم کے تمام ہیجڑوں کو مدینہ طیبہ سے نکال دیا تھا تاکہ یہ مدینے کی فضا خراب نہ کریں۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5235