وكان ابن عمر يحفي شاربه حتى ينظر إلى بياض الجلد، وياخذ هذين، يعني بين الشارب واللحيةوَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُحْفِي شَارِبَهُ حَتَّى يُنْظَرَ إِلَى بَيَاضِ الْجِلْدِ، وَيَأْخُذُ هَذَيْنِ، يَعْنِي بَيْنَ الشَّارِبِ وَاللِّحْيَةِ
اور عمر (یا ابن عمر) رضی اللہ عنہما اتنی مونچھ کترتے تھے کہ کھال کی سپیدی دکھلائی دیتی اور مونچھ اور داڑھی کے بیچ میں (ٹھڈی پر) جو بال ہوتے یعنی متفقہ اس کے بال کتروا ڈالتے۔
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن ابی ہانی نے، ان سے نافع نے بیان کیا، (امام بخاری رحمہ اللہ نے) کہا کہ اس حدیث کو ہمارے اصحاب نے مکی سے روایت کیا، انہوں نے بحوالہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مونچھ کے بال کتروانا پیدائشی سنت ہے۔“
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5888
حدیث حاشیہ: کیونکہ مونچھ بڑھانے سے آدمی بد صورت اور مہیب ہو جاتا ہے جیسے ریچھ کی شکل اور کھانا کھاتے وقت تمام مونچھ کے بال کھانے میں مل جاتے ہیں اور یہ ایک طرح کی غلاظت ہے مگر آج کل فیشن پرستوں نے اسی ریچھ کے فیشن کو اپنا کر اپنا حیلہ درندوں سے ملا دیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5888
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 12
´زیر ناف کے بال مونڈنا۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ناخن تراشنا، مونچھ کے بال لینا، اور زیر ناف کے بال مونڈنا فطری (پیدائشی) سنتیں ہیں۔“[سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 12]
12۔ اردو حاشیہ: ➊ زیر ناف کے بال صاف کرنا اس لیے فطرت میں شامل ہے کہ جماع کے وقت بڑے بال نجاست سے آلودہ ہو سکتے ہیں۔ صفائی مشکل ہو گی خصوصاً جب پانی نہ ہو یا کم ہو۔ لہٰذا انہیں مونڈنا ضروری ہے تاکہ نجاست اور بدبو سے بچا جا سکے۔ ➋ حدیث میں حلق کا لفظ آیا ہے، مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی طریقے سے ان بالوں کو صاف کیا جا سکتا ہے۔ مونڈ کریا دوائی لگا کر یا اکھیڑ کریا کاٹ کر مگر طبی نقطۂ نظر سے مونڈنا ہی مفید ہے۔ اس سے قوت مردمی بڑھتی یا قائم رہتی ہے، نیز اس حکم میں مرد و عورت برابر ہیں۔ ➌ شرم گاہ میں صرف اگلی شرم گاہ شامل ہے جبکہ بعض علماء کے نزدیک اس میں، اگلی پچھلی دونوں شرم گاہیں شامل ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 12