(مرفوع) حدثني إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، اخبرنا يحيى بن آدم، حدثنا ورقاء بن عمر، عن عبيد الله بن ابي يزيد، عن نافع بن جبير، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سوق من اسواق المدينة فانصرف فانصرفت، فقال:" اين لكع ثلاثا، ادع الحسن بن علي"، فقام الحسن بن علي يمشي وفي عنقه السخاب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم بيده هكذا، فقال الحسن: بيده هكذا فالتزمه، فقال:" اللهم إني احبه فاحبه واحب من يحبه"، وقال ابو هريرة، فما كان احد احب إلي من الحسن بن علي، بعد ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما قال.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمَدِينَةِ فَانْصَرَفَ فَانْصَرَفْتُ، فَقَالَ:" أَيْنَ لُكَعُ ثَلَاثًا، ادْعُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ"، فَقَامَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يَمْشِي وَفِي عُنُقِهِ السِّخَابُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ هَكَذَا، فَقَالَ الْحَسَنُ: بِيَدِهِ هَكَذَا فَالْتَزَمَهُ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ"، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، بَعْدَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ.
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے، ان سے نافع بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو میں پھر آپ کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما آ رہے تھے اور ان کی گردن میں (خوشبودار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا کہ (آپ حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگانے کے لیے) اور حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔
Narrated Abu Huraira: I was with Allah's Apostle in one of the Markets of Medina. He left (the market) and so did I. Then he asked thrice, "Where is the small (child)?" Then he said, "Call Al-Hasan bin `Ali." So Al-Hasan bin `Ali got up and started walking with a necklace (of beads) around his neck. The Prophet stretched his hand out like this, and Al-Hasan did the same. The Prophet embraced him and said, "0 Allah! l love him, so please love him and love those who love him." Since Allah's Apostle said that. nothing has been dearer to me than Al-Hasan.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 72, Number 772
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5884
حدیث حاشیہ: فی الواقع آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا شان ایمان ہے۔ یا اللہ! میرے دل میں بھی تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل واولاد سے محبت پیدا کر۔ ومن مذھبي حب النبي وآله والناس فیما یعشقون مذاھب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں ہار تھا اسی سے باب کا مضمون نکلتا ہے نابالغ بچوں کے لیے ایسے ہار وغیرہ پہنا دینا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5884
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5884
حدیث حاشیہ: (1) واقعی آلِ رسول سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔ ”اے اللہ! ہمارے دل میں اللہ اور آل رسول کی محبت پیدا فرما۔ “ اس حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں خوشبودار ہار تھا، اس لیے بچوں کے گلے میں اس طرح کے خوشبودار ہار ڈالے جا سکتے ہیں، خواہ وہ پھولوں کے ہوں یا خوشبودار موتیوں کے ہوں۔ (2) عرب کے لوگ لونگ کے ہار بھی بچوں کو پہنانے کا رواج تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے بنو قینقاع کے بازار گئے وہاں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا: ”بچہ کدھر ہے؟“ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نہلایا اور خوشبودار ہار پہنایا تو وہ دوڑ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغل گیر ہو گئے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2122)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5884
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث142
´علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے“۱؎۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 142]
اردو حاشہ: (1) اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے کہ ان سے محبت اللہ کی محبت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
(2) اپنے بچوں سے محبت کا اظہار کرنا، معاشرہ میں بلند مقام رکھنے والوں کی شان کے منافی نہیں بلکہ اخلاق حسنہ میں شامل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 142
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1073
1073- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں دن کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چند دیگر لوگوں سمیت جارہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنو قنیقاع کے بازار میں تشریف لائے۔ پھر وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مڑے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے آئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ”کیا وہ یہاں ہے؟ کیا وہ یہاں ہے؟“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا امام حسن رضی ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1073]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچوں کے گلے میں ہار ڈالنا درست ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں سے بہت زیادہ محبت تھی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1072
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6257
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کو ایک وقت میں نکلا، کہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بات کرتے تھے اور نہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا تھا (یعنی خاموش چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ بنی قینقاع کے بازار میں پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ کے گھر پر آئے اور پوچھا کہ بچہ ہے؟ بچہ ہے؟ یعنی سیدنا حسن ؓ کا پوچھ رہے تھے۔ ہم سمجھے کہ ان کی ماں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6257]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) في طائفة من النهار: دن کے کسی حصہ میں، (2) صائفة: تو دن کی گرمی میں، (3) لا يكلمني ولا اكلمه: آپ ذکر و فکر میں مشغولیت کی بنا پر چپ چاپ چل رہے اور حضرت ابو ہریرہ، آپ کے ادب و احترام میں آپ کی مشغولیت میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے وہ بھی آپ سے کلام نہیں کر رہے تھے۔ (4) خباء: خیمہ کو کہتے ہیں، لیکن یہاں مراد گھر ہے اور بخاری شریف میں گھر کے سامنے کا آنگن، فناء کا لفظ ہے۔ (5) لكع: کمینے کو کہتے ہیں، لیکن پیار و محبت کے لیے چھوٹے بچے کو بھی کہہ دیتے ہیں۔ (6) سخاب: خوشبو سے تیار کردہ ہار اور بقول بعض مونگوں کا ہار۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6257
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2122
2122. حضرت ابو ہریرہ دوسی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ دن کے وقت ایک طرف نکلے مگر نہ آپ مجھ سے باتیں کرتے اور نہ میں آپ سے کوئی بات کرتا تھا حتی کہ آپ بنو قینقاع کے بازار میں پہنچ گئے۔ (پھر واپس ہوئے) اور حضرت فاطمہ ؓ کے مکان کے صحن میں بیٹھ گئے تو فرمایا: ”کیا یہاں کوئی بچہ ہے؟کیا ادھر کوئی ننھا ہے؟“ حضرت فاطمہ ؓ نے اسے کچھ دیر کے لیے روکے رکھا۔ میں نے خیال کیا کہ وہ انھیں ہار وغیرہ پہنا رہی ہیں یا اسے نہلا رہی ہیں۔ پھر وہ (حضرت حسن ؓ) دوڑتے ہوئے آئے تو آپ ﷺ نے انھیں گلے لگایااور ان سے پیار کیا، پھر فرمایا: ”اے اللہ!تو اس سے محبت کر اور جو اس سے محبت کرے اسے بھی اپنا محبوب بنا۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:2122]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بازار بنو قینقاع سے واپس آئے،پھر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6257(2421) یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کا گھر بنو قینقاع کے بازار میں نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں راوی سے کچھ الفاظ رہ گئے ہیں۔ (فتح الباري: 432/4) (2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بازار بنو قینقاع تشریف لے گئے، اس لیے بازاروں میں آنا جانا اور معاملات کرنا کوئی مذموم امر نہیں۔ ضروریات زندگی کے لیے بہر حال ہر کسی کو بازار جا نا پڑتا ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصد بھی اس امر کا بیان کرنا ہے کیونکہ بیوع کا تعلق زیادہ تر بازاروں ہی سے ہے۔ (3) وتر سے متعلق نافع ؒ کے عمل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عبیداللہ کی نافع سے ملاقات ثابت ہے،اس لیے مذکورہ حدیث میں ان کا ''عن''سے بیان کرنا صحت حدیث پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ (عمدة القاري: 404/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2122