3. باب: آیت کی تفسیر ”اور جب نبی نے ایک بات اپنی بیوی سے فرما دی پھر جب آپ کی بیوی نے وہ بات کسی اور بیوی کو بتا دی اور اللہ نے نبی کو اس کی خبر دی تو نبی نے اس کا کچھ حصہ بتلا دیا اور کچھ سے اعراض فرمایا، پھر جب نبی نے اس بیوی کو وہ بات بتلا دی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو کس نے اس کی خبر دی ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے علم رکھنے والے اور خبر رکھنے والے اللہ نے خبر دی ہے“۔
(3) Chapter. “And (remember) when the Prophet (ﷺ) disclosed a matter in confidence to one of his wives (Hafsa)... (up to)... The All-Aware.” (V.66:3)
(مرفوع) حدثنا علي، حدثنا سفيان، حدثنا يحيى بن سعيد، قال: سمعت عبيد بن حنين، قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: اردت ان اسال عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقلت: يا امير المؤمنين، من المراتان اللتان تظاهرتا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما اتممت كلامي حتى، قال:" عائشة وحفصة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: أَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا أَتْمَمْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ:" عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، کہا میں نے عبید بن حنین سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بات پوچھنے کا ارادہ کیا اور عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستانے کے لیے منصوبہ بنایا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ انہوں نے کہا وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔
Narrated Ibn `Abbas: I intended to ask `Umar so I said, "Who were those two ladies who tried to back each other against the Prophet?" I hardly finished my speech when he said, They were `Aisha and Hafsa."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 436
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4914
حدیث حاشیہ: 1۔ اللہ تعالیٰ نے جو ان دونوں پر عتاب فرمایا جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے، اس عتاب کی دو وجہیں ہیں:
۔ انھوں نے باہمی رقابت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی بات پر مجبور کر دیا جو آپ کے شایان شان نہ تھی۔
۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز ظاہر کر کے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس لیے انھیں متنبہ فرمایا تاکہ انھیں بلکہ معاشرے کی تمام ذمہ دار خواتین کو راز کی حفاظت کی تربیت دی جائے کیونکہ زوجین کے گھریلو معاملات بعض دفعہ ابتدائی طور پر بالکل معمولی معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کا نوٹس نہ لیا جائے تو آئندہ چل کر نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ 2۔ ایک اور حقیقت کی طرف ہم اشارہ کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ جب بیوی نے پوچھا کہ میری یہ غلطی آپ کو کس نے بتائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے علیم وخبیر نے اس کی خبر دی ہے۔ “ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورے قرآن میں وہ آیت کہاں ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو: اے نبی! تم نے اپنی بیویوں سے جو راز کی بات کہی تھی، اس نے ظاہر کر دیا ہے؟ اگر کوئی ایسی آیت نہیں ہے تو یہ اس بات کا واضح اورکھلا ثبوت ہے کہ قرآن کے علاوہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی جو آج احادیث کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ 3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ اپنی بیوی سے ذکر ہی نہ کرتے اور پھر یہ نہ فرماتے کہ مجھے علیم و خبیر رب نے بتایا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4914
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3318
´سورۃ التحریم سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی الله عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما»”اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں“(التحریم: ۴)، (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی الله عنہ نے حج کیا اور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا، میں نے ڈول سے پانی ڈال کر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3318]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں، (التحریم: 4)
2؎: مطلب یہ ہے اگر اس حرکت پر نبیﷺعائشہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے ہیں تو تم بھی اس بھرے میں مت آؤ، وہ تو تم سے زیادہ حسن وجمال کی مالک ہیں، ان کا کیا کہنا!۔
3؎: اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگیاں چاہئے، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں، اورخوش اسلوبی سے تم کو رخصت کر دوں، اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیں اور آخرت کی بھلائی چاہیں تو بے شک اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے، (الأحزاب: 28، 29)
نوٹ: (سند میں بظاہر انقطاع ہے، اس لیے کہ ایوب بن ابی تمیمہ کیسانی نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا زمانہ نہیں پایا، اور امام مسلم نے اس ٹکڑے کو مستقلاً نہیں ذکر کیا، بلکہ یہ ابن عباس کی حدیث کے تابع ہے، اور ترمذی نے ابن عباس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، لیکن اس فقرے کا ایک شاہد مسند احمد میں (3 /328) میں بسند ابوالزبیر عن جابرمرفوعاً ہے، جس کی سند امام مسلم کی شرط پر ہے، اس لیے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحة: 1516)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3318
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3692
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں سال بھر یہ ارادہ کرتا رہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آیت کا مفہوم پوچھوں، لیکن ان کی ہیبت کی بنا پر ان سے پوچھ نہ سکا حتی کہ وہ حج کے لیے نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب واپس پلٹے، تو وہ راستہ کے کسی حصہ پر اپنی ضرورت (قضائے حاجت) کے لیے پیلو کے درخت کی طرف ہٹ گئے، (مڑ گئے) میں بھی ان کی فراغت کے انتظار میں ٹھہر گیا۔ پھر ان کے ساتھ چل پڑا۔ تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3692]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أَاْتَمِرُهُ: میں اس کے بارے میں سوچ وبچار میں مشغول تھا۔ (2) اَنْ تُراجَعَ: تیری بات کا جواب دیا جائے۔ (3) اَخَذَتْنِيْ اَخْذاً: مجھے نشانہ بنایا۔ (4) كَسَرَتْنِيْ عَنْ بَعْضِ مَا اَجِدُ: بعض باتیں جو میں کہنا چاہتا تھا، ان سے پھیر دیا۔ ان کے کرنے کا موقعہ اور گنجائش نہ چھوڑی۔ (5) عَجْلَةٌ: سیڑھی۔ مَصْبُوْرٌ: بندھا ہوا یا جمع شدہ گٹھا۔ (6) اُهُبٌ يا اُهُب: اِهَاب کی جمع ہے۔ وہ چمڑا جو رنگا نہیں گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3692
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3695
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں کافی عرصہ سے خواہش مند (آرزو مند) تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے بارے میں دریافت کروں۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو تمہارے لیے زیبا ہے، تمہارے دل تو اللہ کی طرف مائل ہو ہی چکے ہیں۔“(تحریم: 4)[صحيح مسلم، حديث نمبر:3695]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کو ناپسند کیا مگر جواب نہیں چھپایا درست نہیں ہے۔ کیونکہ تعجب کا اظہار سوال کی ناپسندیدگی پر نہیں تھا سوال کی تو ترغیب اور حوصلہ افزائی کی ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ تعجب اس بات پر کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہیں علم و فضل میں بلند مقام پر فائز سمجھتے تھے اور علم تفسیر میں وہ بہت شہرت رکھتے تھے تو ان پر یہ بات کیسے مخفی رہ گئی اور آج تک انھوں نے کیوں نہ پوچھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3695
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2468
2468. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میری یہ خواہش رہی کہ میں حضرت عمر ؓ سے دریافت کروں کہ نبی ﷺ کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ اور رجوع کرو (تو بہترہے) پس تمھارے دل (حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کے ہمراہ حج کو گیا تو وہ (قضائے حاجت کے لیے) راستے سے ایک طرف ہٹے۔ میں بھی پانی کا مشکیزہ لیے ان کے ہمراہ ہو گیا، چنانچہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر مشکیزے سےپانی ڈالا۔ انھوں نے وضوکیاتو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے وہ کون سی دو عورتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اگر تم تو بہ کرو(تو تمھارے لیے بہتر ہے) پس تمھارے دل(حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ حضرت عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2468]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا اللہ کے رسول ﷺ کو غصہ دلانا اور ناراض کرنا اللہ کو غضب دلانا اور ناراض کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺ جب دنیا میں تشریف رکھتے تھے تو ایک بار حضرت عمر ؓ تورات پڑھنے اور سنانے لگے، آپ ﷺ کا مبارک چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ دوسرے صحابہ نے حضرت عمر ؓ کو ملامت کی کہ آنحضرت ﷺ کا چہرہ نہیں دیکھتے۔ اس وقت انہوں نے تورات پڑھنا موقوف کیا۔ اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر موسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری تابعداری کرنی ہوتی۔ اس حدیث سے ان لوگوں کو نصیحت لینی چاہئے جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس پر حدیث شریف سن کر دوسرے مولوی یا امام یا درویش کی بات پر عمل کرتے ہیں اور حدیث شریف پر عمل نہیں کرتے۔ خیال کرنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک کو ایسی باتوں سے کتنا صدمہ ہوتا ہوگا اور جب آنحضرت ﷺ بھی ناراض ہوئے تو کہاں ٹھکانا رہا۔ اللہ جل و جلالہ بھی ناراض ہوا۔ ایسی حالت میں نہ کوئی مولوی کام آئے گا نہ پیر نہ دوریش نہ امام۔ اللہ! تو اس بات کا گواہ ہے کہ ہم کو اپنے پیغمبر سے ایسی محبت ہے کہ باپ داداد، پیر مرشد، بزرگ امام مجتہد ساری دنیا کا قول اور فعل حدیث کے خلاف ہم لغو سمجھتے ہیں اور تیری اور تیرے پیغمبر ﷺ کی رضا مندی ہم کو کافی وافی ہے۔ اگر یہ سب تیری اور تیرے پیغمبر ﷺ کی تابعداری میں بالفرض ہم سے ناراض ہو جائیں تو ہم کو ان کی ناراضی کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ یا اللہ! ہماری جان بدن سے نکلتے ہی ہم کو ہمارے پیغمبر کے پا س پہنچا دے۔ ہم عالم برزخ میں آپ ہی کی کفش برداری کرتے رہیں اور آپ ہی کی حدیث سنتے رہیں۔ (وحیدی) حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایمان افروز تقریر ان محترم حضرات کو بغور مطالعہ کرنی چاہئے جو آیات قرانی واحادیث صحیحہ کے سامنے اپنے اماموں، مرشدوں کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ بہت سے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کو آیات و احادیث سے غرض نہیں۔ ہمارے لیے ہمارے امام کا فتوی کافی وافی ہے۔ ایسے نادان مقلدین نے حضرات ائمہ کرام و مجتہدین عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی ارواح طیبہ کو سخت ایذا پہنچائی ہے۔ ان بزرگوں کی ہرگز یہ ہدایت نہ تھی کہ ان کو مقام رسالت کا مد مقابل بنا دیا جائے۔ وہ بزرگان معصوم نہ تھے۔ امام تھے، مجتہد تھے، قابل صد احترام تھے مگر وہ رسول نہ تھے۔ نہ نبی تھے اور حضرت محمد ﷺ کے مدمقابل نہ تھے۔ غالی مقلدین نے ان کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے قیامت کے دن یقینا ان کو اس کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ یہی وہ حرکت ہے جسے شرک فی الرسالت ہی کا نام دیا جانا چاہئے۔ یہی وہ مرض ہے جو یہود و نصاریٰ کی تباہی کا موجب بنا اور قرآن مجید کو ان کے لیے صاف کہنا پڑا ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾(التوبة: 31) یہود و نصاریٰ نے اپنے علماءو مشائخ کو اللہ کے سوا رب قرار دے لیا تھا۔ ان کے اوامر و نواہی کو وہ وحی آسمانی کا درجہ دے چکے تھے، اسی لیے وہ عنداللہ مغضوب اور ضالین قرار پائے۔ صد افسوس! کہ امت مسلمہ ان سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اور علماءو مشائخ کو یقینا ایسے لوگوں نے اللہ اور رسول کا درجہ دے رکھا ہے۔ کتنے پیر و مشائخ ہیں جو قبروں کی مجاوری کرتے کرتے خدا بنے بیٹھے ہیں۔ ان کے معتقدین ان کے قدموں میں سر رکھتے ہیں۔ ان کی خدمت و اطاعت کو اپنے لیے دونوں جہاں میں کافی و افی جانتے ہیں۔ ان کی شان میں ایک بھی تنقیدی لفظ گوار نہیں کر سکتے، یقینا ایسے غالی مسلمان آیت بالا کے مصداق ہیں۔ حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں یہ رباعی کہی ہے۔ نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پر دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ ایمان بگڑے نہ ا سلام جائے اقعہ مذکور ہے۔ مختصر لفظوں میں اس کی تفصیل یہ ہے: تمام ازواج کی باری مقرر تھی۔ اور اسی کے مطابق آنحضرت ﷺ ان کے یہاں جایا کرتے تھے۔ ایک دن عائشہ ؓ کی باری تھی اور انہیں کے گھر میں آپ کا اس دن قیام بھی تھا۔ لیکن اتفاق سے کسی وجہ سے آپ حضرت ماریہ قبطیہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے۔ حفصہ نے آپ کو وہاں دیکھ لیا اور آکر عائشہ سے کہہ دیا کہ باری تمہاری ہے اور آنحضرت ﷺ ماریہ ؓ کے یہاں گئے ہیں۔ عائشہ ؓ کو اس پر بڑا غصہ آیا۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت ﷺ نے عہد کر لیا تھا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے علیحدہ رہیں گے۔ اور اس عرصے میں ان کے پاس نہیں جائیں گے۔ ا س پر صحابہ میں بہت تشویش پھیلی اور ازواج مطہرات اور ان کے عزیز و اقارب تک ہی بات نہیں رہی بلکہ تمام صحابہ ؓ اس فیصلے پر بہت پریشان ہو گئے۔ حضور اکرم ﷺ کے اس عہد کی تعبیر احادیث میں ”ایلا“ کے لفظ آتی ہے اور یہ بہت مشہور واقعہ ہے اس سے پہلے بھی بخاری میں اس کا ذکر آچکا ہے۔ ایلاءکے اسباب احادیث میں مختلف آئے ہیں۔ ایک تو وہی جو حدیث میں ذکر ہے، بعض روایتوں میں اس کا سبب ازواج مطہرات کا وہ مطالبہ بیان ہوا ہے کہ اخراجات انہیں ضرورت سے کم ملتے تھے، تنگی رہتی تھی، اس لیے تمام ازواج مطہرات نے حضور اکرم ﷺ سے کہا تھا کہ انہیں اخراجات زیادہ ملنے چاہئیں۔ بعض روایتوں میں شہد کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ علماءنے لکھا ہے کہ اصل میں یہ تمام واقعات پے در پے پیش آئے اور ان سب سے متاثر ہو کر آنحضرت ﷺ نے ایلاءکیا تھا، تاکہ ازواج کو تنبیہ ہو جائے۔ ازواج مطہرات سب کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی انسان تھیں۔ اس لیے کبھی سوکن کی رقابت میں، کبھی کسی دوسرے انسانی جذبہ سے متاثر ہو کر اس طرح کے اقدامات کر جایا کرتی تھیں۔ جن سے آنحضرت ﷺ کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس باب میں اس حدیث کو ا س لیے ذکر کیا کہ اس میں بالا خانے کا ذکر ہے جس میں آپ نے تنہائی اختیار کی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2468
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2468
2468. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میری یہ خواہش رہی کہ میں حضرت عمر ؓ سے دریافت کروں کہ نبی ﷺ کی بیویوں میں سے وہ کون سی دو بیویاں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اگر تم دونوں اللہ کی طرف توبہ اور رجوع کرو (تو بہترہے) پس تمھارے دل (حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کے ہمراہ حج کو گیا تو وہ (قضائے حاجت کے لیے) راستے سے ایک طرف ہٹے۔ میں بھی پانی کا مشکیزہ لیے ان کے ہمراہ ہو گیا، چنانچہ جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر مشکیزے سےپانی ڈالا۔ انھوں نے وضوکیاتو میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین! نبی ﷺ کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے وہ کون سی دو عورتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اگر تم تو بہ کرو(تو تمھارے لیے بہتر ہے) پس تمھارے دل(حق سے) کچھ ہٹ گئے ہیں۔“ حضرت عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2468]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس طویل حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے جن کا ذکر اپنے اپنے مقام پر آئے گا۔ اس مقام پر اسے پیش کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ مکان پر بالاخانہ تعمیر کرنا جائز ہے بشرطیکہ ہمسایوں کی پردہ دری نہ ہوتی ہو۔ اگر اس سے ان کی بے پردگی ہو تو جائز نہیں۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے بالاخانے کا ذکر ہے، آپ کی رہائش کے علاوہ، زکاۃ وغیرہ کا جو مال آتا وہ بھی اسی میں رکھا جاتا تھا۔ دوسری روایات میں ہے کہ اس پر چڑھنے کے لیے کھجور کے تنوں کے سیڑھیاں تھی۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 387) وہاں نگرانی کے لیے ایک حبشی غلام بھی تعینات تھا۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ اس کی نگرانی حضرت بلال ؒ کے ذمے تھی۔ (2) علامہ عینى ؒ نے لکھا ہے کہ بالاخانہ چار قسم کا ہوتا ہے: ٭ مکان کی چھت پر ہو اور اس سے تاک جھانک ممکن ہو۔ اس قسم کا بالاخانہ ناجائز ہے۔ ٭ مکان کی چھت پر ہو لیکن اس سے جھانک نہ پڑتی ہو۔ اس کی دیواریں اونچی ہوں۔ ایسا بالاخانہ بنانا جائز ہے۔ ٭ وہ بلند مکان جو چھت کے بجائے مستقل ہو، اس سے پڑوسیوں کی بے پردگی ہوتی ہو۔ یہ بھی ناجائز ہے۔ ٭ ایسا اونچا مکان جو چھت پر نہ ہو لیکن اس میں تاک جھانک کا سدباب ہو، ایسا اونچا مکان تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر پڑوسی کو نقصان پہنچنے کا واضح امکان ہو تو درست نہیں بصورت دیگر بالاخانہ جائز ہے۔ (عمدة القاري: 223/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2468