1. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے اسے آپ اپنے لیے کیوں حرام قرار دے رہے ہیں، محض اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے کے لیے حالانکہ یہ آپ کے لیے زیبا نہیں ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت کرنے والا ہے“۔
(1) Chapter. “O Prophet! Why do you forbid (for yourself) that which Allah has allowed to you?.." (V.66:1)
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے ابن حکیم نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس نے کہا کہ اگر کسی نے اپنے اوپر کوئی حلال چیز حرام کر لی تو اس کا کفارہ دینا ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لقد كان لكم في رسول الله إسوة حسنة» یعنی ”بیشک تمہارے لیے تمہارے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔“
Narrated Ibn `Abbas: If someone says to his wife, "You are unlawful to me." he must make an expiation (for his oath). Ibn `Abbas added: There is for you in Allah's Messenger , an excellent example to follow.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 433
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4911
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو خوش کرنے کے لیے خود پر شہد کو حرام کرلیا تھا، جس کی تفصیل آئندہ حدیث میں آ رہی ہے، اس طرح کا کام اگر کسی ضرورت ومصلحت کے لیے ہوتو جائز ہے گناہ نہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ آپ نے یہ کام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کو راضی کرنے کے لیے کیا تھا جبکہ ایسے معاملات میں ان کا راضی کرنا آپ پر لازم نہ تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ اس قسم کا کفارہ دیں اور قسم کا کفارہ ہے: دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلایا جائے یا انھیں لباس دیا جائے یا ایک غلام لونڈی کو آزاد کیا جائے۔ اگر ان میں سے کسی چیز کی طاقت نہ ہوتو تین دن کے روزے رکھے جائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4911