صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
4. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} :
4. باب: آیت کی تفسیر ”اے دونوں بیویو! اگر تم اللہ کے سامنے توبہ کر لو گی تو بہتر ہے تمہارے دل اس (غلط بات کی) طرف جھک گئے ہیں“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “If you two (wives of the Prophet , namely, Aishah and Hafsa) turn in repentance to Allah, (it will be better for you), your hearts are indeed so inclined (to oppose what the Prophet likes)." (V.66:4)
حدیث نمبر: Q4915
Save to word اعراب English
صغوت واصغيت ملت لتصغى: لتميل، وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه وجبريل وصالح المؤمنين والملائكة بعد ذلك ظهير سورة التحريم آية 4، عون تظاهرون تعاونون، وقال مجاهد: قوا انفسكم واهليكم: اوصوا انفسكم واهليكم بتقوى الله وادبوهم.صَغَوْتُ وَأَصْغَيْتُ مِلْتُ لِتَصْغَى: لِتَمِيلَ، وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ سورة التحريم آية 4، عَوْنٌ تَظَاهَرُونَ تَعَاوَنُونَ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ: أَوْصُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَأَدِّبُوهُمْ.
‏‏‏‏ عرب لوگ کہتے ہیں «صغوت» ای «صغوت» یعنی میں جھک پڑا ( «لتصغى») جو سورۃ الانعام میں ہے جس کا معنی جھک جائیں۔ «وإن تظاهرا عليه فإن الله هو مولاه وجبريل وصالح المؤمنين والملائكة بعد ذلك ظهير» یعنی اگر نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مقابلہ میں تم روز نیا حملہ کرتی رہیں تو اس کا مددگار تو اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک مسلمان ہیں اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مددگار ہیں۔ «ظهير» کا معنی مددگار۔ «تظاهرون» ایک کی ایک مدد کرتے ہو۔ مجاہد نے کہا آیت «قوا أنفسكم وأهليكم» کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ کا ڈر اختیار کرنے کی نصیحت کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔

حدیث نمبر: 4915
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا يحيى بن سعيد، قال: سمعت عبيد بن حنين، يقول: سمعت ابن عباس، يقول: كنت اريد ان اسال عمر عن المراتين اللتين تظاهرتا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمكثت سنة، فلم اجد له موضعا حتى خرجت معه حاجا، فلما كنا بظهران ذهب عمر لحاجته، فقال: ادركني بالوضوء فادركته بالإداوة، فجعلت اسكب عليه الماء، ورايت موضعا، فقلت:" يا امير المؤمنين، من المراتان اللتان تظاهرتا، قال ابن عباس: فما اتممت كلامي حتى، قال:" عائشة وحفصة".(موقوف) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ حُنَيْنٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ اللَّتَيْنِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَكَثْتُ سَنَةً، فَلَمْ أَجِدْ لَهُ مَوْضِعًا حَتَّى خَرَجْتُ مَعَهُ حَاجًّا، فَلَمَّا كُنَّا بِظَهْرَانَ ذَهَبَ عُمَرُ لِحَاجَتِهِ، فَقَالَ: أَدْرِكْنِي بِالْوَضُوءِ فَأَدْرَكْتُهُ بِالْإِدَاوَةِ، فَجَعَلْتُ أَسْكُبُ عَلَيْهِ الْمَاءَ، وَرَأَيْتُ مَوْضِعًا، فَقُلْتُ:" يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنِ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا أَتْمَمْتُ كَلَامِي حَتَّى، قَالَ:" عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن انصاری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبید بن حنین سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان عورتوں کے متعلق سوال کرنا چاہا جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر زور کیا تھا۔ ایک سال اسی فکر میں رہا اور مجھے کوئی موقع نہیں ملتا تھا آخر ان کے ساتھ حج کے لیے نکلا (واپسی میں) جب ہم مقام ظہران میں تھے تو عمر رضی اللہ عنہ رفع حاجت کے لیے گئے۔ پھر کہا کہ میرے لیے وضو کا پانی لاؤ، میں ایک برتن میں پانی لایا اور ان کو وضو کرانے لگا اس وقت مجھ کو موقع ملا۔ میں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! وہ عورتیں کون تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ایسا کیا تھا؟ ابھی میں نے اپنی بات پوری نہ کی تھی انہوں نے کہا کہ وہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما تھیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: I intended to ask `Umar about those two ladies who back each other against 'Allah's Messenger . For one year I was seeking the opportunity to ask this question, but in vain, until once when I accompanied him for Hajj. While we were in Zahran, `Umar went to answer the call of nature and told me to follow him with some water for ablution. So I followed him with a container of water and started pouring water for him. I found it a good opportunity to ask him, so I said, "O chief of the Believers! Who were those two ladies who had backed each other (against the Prophet)?" Before I could complete my question, he replied, "They were `Aisha and Hafsa."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 437


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4915 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4915  
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ معاملہ کرنے میں اس عظیم فرق کوملحوظ رکھیں جو ایک عام شوہر اورپیغمبر میں ہوتا ہے۔
یہ شوہر نامدار صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عظیم مصروفیات سے جو لمحات بچا کر انھیں بخش دیں وہ ان کی قدر کریں وہ اس گمان میں نہ رہیں کہ ہمارے پیغمبر ان کی محبت اوررفاقت کے محتاج ہیں کہ اس وجہ سے لازمی طور پر ان کی دلداری اور ناز برداری ملحوظ رکھیں گے۔
وہ اس حد تک دل داری کریں گے جہاں تک اللہ نے گنجائش رکھی ہے۔
اگر کسی معاملے میں ذرا بھی حدود سے تجاوز ہوا تو اس پر احتساب بھی ان کے فرائض میں شامل ہے، جس میں کوتاہی نہیں ہوگی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4915   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.