(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابي حيان، قال: حدثني ابو زرعة، قال: حدثني ابو هريرة رضي الله عنه، قال: قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم فذكر الغلول فعظمه وعظم امره، قال:" لا الفين احدكم يوم القيامة على رقبته شاة لها ثغاء على رقبته فرس له حمحمة، يقول: يا رسول الله اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك وعلى رقبته بعير له رغاء، يقول: يا رسول الله اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك وعلى رقبته صامت، فيقول: يا رسول الله اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك او على رقبته رقاع تخفق، فيقول: يا رسول الله اغثني، فاقول: لا املك لك شيئا قد ابلغتك، وقال ايوب، عن ابي حيان فرس له حمحمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، قَالَ:" لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَقَالَ أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔ اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘ یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔ یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔ اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet got up amongst us and mentioned Al Ghulul, emphasized its magnitude and declared that it was a great sin saying, "Don't commit Ghulul for I should not like to see anyone amongst you on the Day of Ressurection, carrying over his neck a sheep that will be bleating, or carrying over his neck a horse that will be neighing. Such a man will be saying: 'O Allah's Apostle! Intercede with Allah for me,' and I will reply, 'I can't help you, for I have conveyed Allah's Message to you Nor should I like to see a man carrying over his neck, a camel that will be grunting. Such a man will say, 'O Allah's Apostle! Intercede with Allah for me, and I will say, 'I can't help you for I have conveyed Allah's Message to you,' or one carrying over his neck gold and silver and saying, 'O Allah's Apostle! Intercede with Allah for me,' and I will say, 'I can't help you for I have conveyed Allah's Message to you,' or one carrying clothes that will be fluttering, and the man will say, 'O Allah's Apostle! Intercede with Allah for me.' And I will say, 'I can't help you, for I have conveyed Allah's Message to you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 307
لا ألفين أحدكم يوم القيامة على رقبته شاة لها ثغاء على رقبته فرس له حمحمة يقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك وعلى رقبته بعير له رغاء يقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك وعلى رقبته صامت فيقول يا رسول الله أغثني فأقول
لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته بعير له رغاء يقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة على رقبته فرس له حمحمة فيقول يا رسول الله أغثني فأقول لا أملك لك شيئا قد أبلغتك لا ألفين أحدكم يجيء يوم القيامة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3073
حدیث حاشیہ: فتح اسلام کے بعد میدان جنگ میں جو بھی اموال ملیں وہ سب مال غنیمت کہلاتا ہے۔ اسے باضابطہ امیر اسلام کے ہاں جمع کرنا ہو گا۔ بعد میں شرعی تقسیم کے تحت وہ مال دیا جائے گا۔ اس میں خیانت کرنے والا عنداللہ بہت بڑا مجرم ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں بیان ہوا ہے۔ بکری‘ گھوڑا‘ اونٹ یہ سب چیزیں تمثیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ روایت میں اموال غنیمت میں سے ایک چادر کے چرانے والے کو بھی دوزخی کہا گیا ہے۔ چنانچہ وہ حدیث آگے مذکور ہے۔ قال المھلب ھذا الحدیث وعید لمن أنفذہ اللہ علیه من أهل المعاصي ویحتمل أن یکون الحمل المذکور لا بد منه عقوبة له بذالك لیفتضح علی رؤوس الأشهاد و أما بعد ذلك فإلی اللہ الأمر في تعذیبه أو العفو عنه وقال غیره هذا الحدیث یفسر قوله عز و جل ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ أي یأت به حاملا له علی رقبته (فتح) یعنی اس حدیث میں وعید ہے اہل معاصی کے لئے۔ احتمال ہے کہ یہ اٹھانا بطور عذاب اس کے لئے ضروری ہو‘ تاکہ وہ سب کے سامنے ذلیل ہو‘ بعد میں اللہ کو اختیار ہے چاہے اسے عذاب کرے‘ چاہے معاف کرے۔ یہ حدیث آیت کریمہ ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾(آل عمران: 161) کی تفسیر بھی ہے کہ وہ عاصی اس خیانت کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3073
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3073
حدیث حاشیہ: 1۔ فتح کے بعد میدان جنگ میں جو بھی مال وغیرہ ملے اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔ اسے باضابطہ طور پر امیر لشکر کے پاس جمع کرانا چاہیے۔ اس کے بعد شرعی تقسیم کے تحت وہ مجاہدین کو دیا جائے گا۔ اس مال غنیمت میں خیانت کا مرتکب اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم ہوگا۔ حدیث میں مذکورہ اشیاء بطورتمثیل بیان ہوئی ہیں۔ مال غنیمت سے تو ایک چادر چرانے والے کو بھی جہنمی کہا گیاہے۔ 2۔ اس حدیث سے آیت کریمہ کی بھی تفسیر ہوتی ہے۔ کہ دنیا میں جو بھی خیانت کی ہوگی قامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کرلائے گا اور رسول اللہ ﷺ ڈانٹتے ہوئے اسے فرمائیں گے: ”میں تیرے متعلق کسی قسم کااختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیاتھا۔ اب تیرےلیے کوئی عذرقابل قبول نہیں۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3073
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4734
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطاب کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپﷺ نے غنیمت میں خیانت کی سنگینی کا ذکر کیا اور اس معاملہ کو انتہائی سنگین قرار دیا، پھر فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن آئے اور اس کی گردن پر اونٹ سوار ہو، جو بلبلا رہا ہو، وہ کہے، اے اللہ کے رسولﷺ! میری فریاد رسی کیجئے، تو میں جواب دوں گا، میرے اختیار میں تیرے لیے کچھ نہیں، میں تمہیں پیغام... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4734]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) لَا أُلْفِيَنَّ: میں کسی کوہرگزنہ پاؤں۔ یا لَا أُلْقِيَنَّ میری ہرگز ملاقات نہ ہو۔ (2) رُغَاءٌ: اونٹ کی آواز، جس کو بلبلانا کہتے ہیں۔ (3) حَمْحَمَةٌ: چارہ دیکھ کر گھوڑے کی آواز، جس کو ہنہنانے سے تعبیر کرتے ہیں۔ (4) ثُغَاءٌ: بکری کی آواز، جسےمنمنانے یا ممیانے کا نام دیا جاتا ہے۔ (5) رِقَاعٌ: رقعة کی جمع ہے، کپڑے کے ٹکڑے، یہاں مراد کپڑے ہیں، جو تخفق ہل رہےہوں گے۔ (6) صَامِتٌ: سونا چاندی، ناطق حیوانات کےمقابلہ میں آتا ہے۔ (7) صِيَاحٌ: چیخنا، چلانا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام امور کی نشان دہی فرما دی ہے، جس کی انسان نے پابندی کرنی ہے، اس لیے اگر وہ کسی شرعی حکم کی مخالفت کرے گا، تو اسے اس کی سزا ملے گی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آغاز میں ایسے کسی انسان کی سفارش نہیں فرمائیں گے، جس نے مالی خیانت کی ہو گی یا کسی کا ناجائز خون بہایا ہو گا اور مال غنیمت میں کسی قسم کی خیانت انتہائی سنگین ہے اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہے، حتیٰ کہ بعض ائمہ کے نزدیک اس کا تمام مال جلا دیا جائے گا، لیکن جمہور ائمہ، امام مالک، امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا مال جلایا نہیں جائے گا، امام اپنی صوابدید کے مطابق اس کو سزا دے گا، اس لیے اگر کسی نے کسی کا مال کسی ناجائز طریقہ سے لیا ہے، تو اسے توبہ کرکے پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے، اس کے مالک یا اس کے ورثاء کو واپس کردینا چاہیے، یہ ممکن نہ ہو، تو اس کی طرف سے صدقہ کر دینا چاہیے، اگر حکومت کا مال کھایا ہے، تو کسی قومی فنڈ میں سے جمع کرا دے۔